بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾

۱۔ ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی قسم کی کجی نہیں رکھی۔

قَیِّمًا لِّیُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِیۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡہُ وَ یُبَشِّرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا حَسَنًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ نہایت مستحکم ہے تاکہ اس کی طرف سے آنے والے شدید عذاب سے خبردار کرے اور ان مومنین کو بشارت دے جو نیک عمل کرتے ہیں کہ ان کے لیے بہتر اجر ہے۔

1۔ 2 قرآن ایک دستور حیات ہے جو انسانی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ قرآنی تعلیمات میں کوئی ناہم آہنگی عوج نہیں ہے۔ اس لیے یہ دستور حیات ہونے کے لحاظ سے قیم ہے۔ یعنی ایک نہایت استوار دستور حیات ہے جو بندوں کے نظام زندگی کا محافظ ہے۔

مَّاکِثِیۡنَ فِیۡہِ اَبَدًا ۙ﴿۳﴾

۳۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

وَّ یُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا ٭﴿۴﴾

۴۔اور انہیں تنبیہ کرے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے۔

مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ وَّ لَا لِاٰبَآئِہِمۡ ؕ کَبُرَتۡ کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ؕ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا کَذِبًا﴿۵﴾

۵۔ اس بات کا علم نہ انہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو، یہ بڑی (جسارت کی) بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، یہ تو محض جھوٹ بولتے ہیں۔

4۔ 5 اللہ تعالیٰ کو جسم و جسمانی قرار دینا اور اللہ کے لیے وہ چیزیں ثابت کرنا جو جسم و جسمانی ہونے کی صورت میں حاصل ہو سکتی ہیں، شان الٰہی میں گستاخی ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی گرفت بھی سخت ہوتی ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے جب یہ مطالبہ کیا کہ ہمیں اللہ علانیہ طور پر دکھا دے تو ان پر بجلی گری۔

اس آیت میں خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی اولاد ہونے کے قائل ہیں ان کی خصوصی طور پر تنبیہ ہو گی، کیونکہ یہ کہنا کہ اللہ کے لیے اولاد ہے، اس کو اللہ نے بڑی جسارت سے تعبیر فرمایا ہے۔

فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ اِنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَسَفًا﴿۶﴾

۶۔ پس اگر یہ لوگ اس (قرآنی) مضمون پر ایمان نہ لائے تو ان کی وجہ سے شاید آپ اس رنج میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

6۔ لوگوں کے عدم ایمان اور اللہ کے پیغام حق کو پزیرائی نہ ملنے پر جو رنج و غم رسول اللہ کو درپیش ہوتا تھا اس رنج و غم کی سنگینی کا اندازہ اس آیت سے ہوتا ہے کہ رب العالمین کو یہ کہنا پڑا کہ آپ اس حد تک ان کے عدم ایمان کی وجہ سے غم و اندوہ میں اپنے آپ کو مبتلا نہ کیجیے کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَی الۡاَرۡضِ زِیۡنَۃً لَّہَا لِنَبۡلُوَہُمۡ اَیُّہُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا﴿۷﴾

۷۔ روئے زمین پر جو کچھ موجود ہے اسے ہم نے زمین کے لیے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں سب سے اچھا عمل کرنے والا کون ہے ۔

7۔ ہم نے زمین کو پرکشش بنایا۔ اس میں ایسی دلفریب چیزیں پیدا کیں جن سے ہم انسان کی آزمائش کریں گے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ یعنی ہم تمہیں خیر و شر سے آزمائیں گے۔ کیا اس پر موجود پرکشش چیزوں سے رب کی رضا حاصل کی جاتی ہے؟ یا ان چیزوں کو اللہ کی خوشنودی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے؟

وَ اِنَّا لَجٰعِلُوۡنَ مَا عَلَیۡہَا صَعِیۡدًا جُرُزًا ؕ﴿۸﴾

۸۔ اور اس پر جو کچھ ہے اسے ہم (کبھی) بنجر زمین بنانے والے ہیں۔

8۔ سطح زمین پر موجود عارضی زیب و زینت ایک وقت ختم ہو کر یہ زمین ایک چٹیل میدان میں بدل جائے گی تو اس وقت پتہ چلے گا کہ زمین کی زندگی میں عیش و عشرت محض ایک آزمائش تھی۔

اَمۡ حَسِبۡتَ اَنَّ اَصۡحٰبَ الۡکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنۡ اٰیٰتِنَا عَجَبًا﴿۹﴾

۹۔ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غار اور کتبے والے ہماری قابل تعجب نشانیوں میں سے تھے؟

9۔ اصحاب کہف کو چند سو سال سلائے رکھنا اللہ کی عظیم نشانیوں میں کوئی انوکھی بات نہیں، نہ ہی قدرت خدا کے لیے یہ کوئی مشکل کام ہے۔ کہف وسیع غار کے معنوں میں ہے او رقیم بمعنی مرقوم ہے۔ جیسے قتیل بمعنی مقتول آتا ہے۔ اس سے مراد وہ لوح ہے جس پر اصحاب کہف کے نام و نسب اور مختصر واقعہ درج تھا۔ اس لیے انہیں اَصۡحٰبَ الۡکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ کہا گیا۔

اِذۡ اَوَی الۡفِتۡیَۃُ اِلَی الۡکَہۡفِ فَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً وَّ ہَیِّیٴۡ لَنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا ﴿۱۰﴾

۱۰۔ جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی تو کہنے لگے: اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بارگاہ سے رحمت عنایت فرما اور ہمیں ہمارے اقدام میں کامیابی عطا فرما۔