آیت 10
 

اِذۡ اَوَی الۡفِتۡیَۃُ اِلَی الۡکَہۡفِ فَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً وَّ ہَیِّیٴۡ لَنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا ﴿۱۰﴾

۱۰۔ جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی تو کہنے لگے: اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بارگاہ سے رحمت عنایت فرما اور ہمیں ہمارے اقدام میں کامیابی عطا فرما۔

تشریح کلمات

اَوَی:

( ا و ی ) اس کا مصدر الماوی ہے۔ کسی جگہ پر نزول کرنا یا پناہ حاصل کرنا۔

الۡفِتۡیَۃُ:

( ف ت ی ) الفتی کی جمع ہے جس کے معنی جوان کے ہیں۔ بطور کنایہ غلام کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

اصحاب کہف کا واقعہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ابو بصیر اس طرح روایت کرتے ہیں:

سورہ کہف کا شان نزول یہ ہے کہ قریش نے تین افراد نضر بن حارث بن کلدۃ اور عقبہ بن ابی معط اور عاص بن وائل کو نجران روانہ کیا تاکہ یہودیوں سے چند مسائل سیکھ آئیں اور ان مسائل کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا جائے۔ وہ نجران کے علماء و یہود سے ملے انہوں نے کا:

محمد سے تین مسائل پوچھو اگر اس نے جو ہمارے علم میں ہے اس کے مطابق جواب دیا تو وہ سچا ہے اس کے بعد ایک اور مسئلہ پوچھو اگر اس کے علم کا دعویٰ کیا تو وہ جھوٹا ہے۔

کہا: وہ مسائل کیا ہیں ؟

کہا: ان سے پوچھو قدیم زمانے میں چند جوان افراد بھاگے اور غائب ہو گئے اور سو گئے۔ وہ کتنی دیر سوئے؟ ان کی تعداد کیا تھی؟ ان کے ساتھ ان کے علاوہ کیا تھا؟ اور ان کا قصہ کیا تھا؟ اور موسیٰ کے بارے میں پوچھو کہ جس عالم کی پیروی اور ان سے علم حاصل کرنے کا اللہ نے حکم دیا تھا وہ عالم کون تھا؟ اس کی کیسے پیروی کی اور اس کا قصہ کیا تھا؟ پھر ان واقعات کو لکھوایا اور کہا جیسے ہم نے لکھوایا ہے اسی طرح جواب دیا تو وہ سچا ہے ورنہ جھوٹا ہے۔

کہا: تیسرا مسئلہ کیا ہے؟

کہا: اس سے قیامت کے بارے میں سوال کرو اگر اس نے اس بارے میں علم کا دعویٰ کیا تو وہ کاذب ہے چونکہ قیامت کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔

وہ مکہ لوٹے حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور کہا

آپ کا بھتیجا یہ گمان کرتا ہے کہ میرے پاس آسمان کی خبریں آتی ہیں۔ ہم چند مسائل پوچھنے والے ہیں۔ اگر صحیح جواب دیا تو پتہ چلے گا وہ سچا ہے ورنہ وہ کاذب ہے۔

حضرت ابو طالب نے فرمایا: جو جی میں آئے پوچھ لو۔ چنانچہ ان لوگوں نے ان تین مسائل کے بارے میں پوچھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میں کل اس کا جواب دوں گا اور انشاء اللہ نہیں کہا۔ چالیس دن تک وحی نازل نہ ہوئی جس پر حضور غمگین ہوئے کچھ اہل ایمان شک کا شکار ہوئے۔ قریش والوں نے تمسخر کرنا شروع کیا اور حضرت ابو طالب غمگین ہوئے۔ چالیس روز کے بعد سورہ کہف نازل ہوا۔۔۔۔

مروی ہے کہ پھر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

اصحاب کہف و رقیم ایک جابر بادشاہ کے زمانے میں تھے۔ وہ اپنے عوام کو بت پرستی کی دعوت دیتا، انکار کرنے والے کو قتل کرتا تھا۔ یہ لوگ مؤمن تھے۔ صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ بادشاہ کی طرف سے شہر کے دروازے پر پہرہ بٹھایا تھا کہ وہاں سے بتوں کو سجدہ کیے بغیر نکلنے نہیں دیتے تھے مگر یہ لوگ شکار کے بہانے نکلے، راستے میں ایک چرواہے سے ملے۔ اس نے ساتھ نہ دیا مگر اس کے کتے نے ان کا ساتھ دیا۔ وہ بھاگتے ہوئے غار تک پہنچ گئے اور کتا ان کے ساتھ تھا۔ غار میں ان پر طویل خواب مسلط کیا گیا۔ بادشاہ اور شہر والے سب ختم ہوگئے۔ زمانہ اور لوگ بدل گئے تو وہ بیدار ہوئے۔ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے ہم کتنی مدت سوئے ہوں گے؟ دیکھا سورج چڑھ گیا ہے لہٰذا دن کا ایک حصہ یا ایک دن سوئے ہوں گے۔ اپنے میں سے ایک فرد کو ایک سکہ دے کر شہر کی طرف کھانے کے لیے بھیجا اور کہا: خبردار کوئی تجھے پہنچاننے نہ پائے۔ اگر ان لوگوں نے پہچان لیا تو یا تو ہمیں قتل کریں گے یا اپنا دین اختیار کرنے پر مجبور کریں گے۔ وہ شہر پہنچا تو دیکھا ہر چیز بدلی ہوئی ہے۔ حتیٰ زبان کے سمجھنے میں دقت پیش آئی۔ لوگوں نے کہا: تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو؟ اس نے اپنے سارے حالات بتا دیے تو بادشاہ اپنے اعوان کے ساتھ نکلا اور غار کے دہانے تک پہنچ گیا۔۔۔۔

)المیزان ذیل آیہ۔ پھر روایت کے الفاظ قرآنی تعبیرات سے متصادم ہیں کہ بادشاہ اور اس کے اعوان نے اصحاب کہف کی تعداد میں اختلاف کیا الی آخر روایت۔ اس وجہ سے ہم نے پوری روایت نقل نہیں کی ممکن ہے یہ اشتباہ راوی کی طرف سے سرزد ہوا ہو(۔

فَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً: اپنے دین کو بچانے کے لیے ہجرت اختیار کرنے کے بعد اس دعا کے لیے محل ہے کہ وہ اس ہجرت کے بعد دو باتوں کے اہل بن گئے: ایک اللہ کی رحمت، دوسری بات اس اقدام کی کامیابی کے: وَّ ہَیِّیٴۡ لَنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا ۔

اہم نکات

۱۔ بلاد شرک سے ہجرت کرنا موحدین کی سیرت ہے۔

۲۔ راہ خدا میں عملی اقدام کے بعد دعا کی جاتی ہے: وَّ ہَیِّیٴۡ لَنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا ۔


آیت 10