وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰی تِسۡعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسۡـَٔلۡ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِذۡ جَآءَہُمۡ فَقَالَ لَہٗ فِرۡعَوۡنُ اِنِّیۡ لَاَظُنُّکَ یٰمُوۡسٰی مَسۡحُوۡرًا﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو نو (۹) واضح نشانیاں دی تھیں یہ بات خود بنی اسرائیل سے پوچھ لیجیے، جب موسیٰ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان (موسیٰ) سے کہا: اے موسیٰ! میرا خیال ہے کہ تم سحرزدہ ہو گئے ہو۔

101۔ مکہ کے مشرکین کو معجزات کے مطالبے کا جواب دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ ایمان کی خاطر نہیں صرف بہانہ جوئی کے لیے معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں وہ معجزوں سے کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ جیسا کہ فرعون کی مثال سامنے ہے اور بنی اسرائیل سے اس کی تصدیق لے سکتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ایک دو نہیں نو(9) معجزے دکھانے کے بعد ایمان لانے کی جگہ حضرت موسیٰ کو سحر زدہ قرار دیا۔ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے نو سے زیادہ ہیں لیکن یہاں ان معجزوں کا ذکر ہے جو فرعون کو حجت تمام کرنے کے لیے پیش کیے۔

قَالَ لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَاۤ اَنۡزَلَ ہٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ بَصَآئِرَ ۚ وَ اِنِّیۡ لَاَظُنُّکَ یٰفِرۡعَوۡنُ مَثۡبُوۡرًا﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ موسیٰ نے کہا: (اے فرعون دل میں) تو یقینا جانتا ہے کہ ان نشانیوں کو آسمانوں اور زمین کے رب نے ہی بصیرت افروز بنا کر نازل کیا ہے اور اے فرعون! میرا خیال ہے کہ تو ہلاک ہو جائے گا۔

فَاَرَادَ اَنۡ یَّسۡتَفِزَّہُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ فَاَغۡرَقۡنٰہُ وَ مَنۡ مَّعَہٗ جَمِیۡعًا﴿۱۰۳﴾ۙ

۱۰۳۔ پس فرعون نے ارادہ کر لیا تھا کہ انہیں زمین سے ہٹا دے مگر ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک ہی ساتھ غرق کر دیا۔

وَّ قُلۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ لِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اسۡکُنُوا الۡاَرۡضَ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا﴿۱۰۴﴾ؕ

۱۰۴۔ اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا: تم اس سرزمین میں سکونت اختیار کرو پھر جب آخرت کا وعدہ آ جائے گا تو ہم تم سب کو ایک ساتھ لے آئیں گے۔

وَ بِالۡحَقِّ اَنۡزَلۡنٰہُ وَ بِالۡحَقِّ نَزَلَ ؕ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا﴿۱۰۵﴾ۘ

۱۰۵۔ اور اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور اسی حق کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے اور (اے رسول) ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔

وَ قُرۡاٰنًا فَرَقۡنٰہُ لِتَقۡرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکۡثٍ وَّ نَزَّلۡنٰہُ تَنۡزِیۡلًا﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ اور قرآن کو ہم نے جدا جدا رکھا ہے تاکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج نازل کیا ہے۔

106۔ تاکہ لوگوں کو اس کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں آسانی ہو اور تدریجی عمل سے لوگوں میں اس دستور کو قبول کرنے اور اس پرعمل کرنے کی استعداد پیدا کرنے کا موقع ملتا رہے تاکہ علم کے ساتھ عمل اور تعلیم کے ساتھ تربیت کا سلسلہ جاری رہے۔ ورنہ بنی اسرائیل کو توریت دفعتاً دی گئی تو اسے سنوانے کے لیے پہاڑوں کو سرپر اٹھانا پڑا۔

قُلۡ اٰمِنُوۡا بِہٖۤ اَوۡ لَا تُؤۡمِنُوۡا ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مِنۡ قَبۡلِہٖۤ اِذَا یُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ یَخِرُّوۡنَ لِلۡاَذۡقَانِ سُجَّدًا﴿۱۰۷﴾ۙ

۱۰۷۔ کہدیجئے: تم خواہ اس پر ایمان لاؤ یا ایمان نہ لاؤ، اس سے پہلے جنہیں علم دیا گیا ہے جب یہ پڑھ کر انہیں سنایا جاتا ہے تو یقینا وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں۔

107۔ قرآن پیغام فطرت ہے۔ فطرت سلیمہ رکھنے والے قرآنی آیات کو سن کے بے ساختہ ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف آیات الٰہی سن کر سجدہ کرتے ہیں بلکہ بے ساختہ سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ان کے پاس جو علم ہے وہ ان کو ایسا کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ان کے اعضا و جوارح سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ان کے دل میں بھی خشوع آجاتا ہے اور فرط جذبات سے گریہ کرتے ہیں۔

وَّ یَقُوۡلُوۡنَ سُبۡحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنۡ کَانَ وَعۡدُ رَبِّنَا لَمَفۡعُوۡلًا﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ اور کہتے ہیں: پاک ہے ہمارا رب اور ہمارے رب کا وعدہ پورا ہوا۔

108۔ یعنی تمہارے ایمان نہ لانے سے قرآن کی حقانیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ قرآن کے انسانی فطرت و ضمیر کی آواز ہونے کے ثبوت کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اس آواز کو پاک فطرت والوں کی طرف سے پذیرائی ملی ہے۔

وَ یَخِرُّوۡنَ لِلۡاَذۡقَانِ یَبۡکُوۡنَ وَ یَزِیۡدُہُمۡ خُشُوۡعًا﴿۱۰۹﴾ٛ۩

۱۰۹۔ اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہیں اور روتے جاتے ہیں اور اللہ ان کا خشوع مزید بڑھا دیتا ہے۔

قُلِ ادۡعُوا اللّٰہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ وَ لَا تَجۡہَرۡ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتۡ بِہَا وَ ابۡتَغِ بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ کہدیجئے: اللہ کہ کر پکارو یا رحمن کہ کر پکارو، جس نام سے بھی پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں اور آپ اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھیں، نہ بہت آہستہ بلکہ درمیانی راستہ اختیار کریں۔

110۔ مشرکین اللہ کے لفظ سے مانوس تھے، مگر رحمٰن کے لفظ سے مانوس نہ تھے۔ جب رسالتمآب یا اللہ یا رحمٰن کہتے تو مشرکین نے کہنا شروع کیا کہ یہ ہمیں توحید کی دعوت دیتا ہے خود دو خداؤں کو پکارتا ہے۔ اس آیت میں فرمایا کہ دونوں لفظوں کا مقصد و مراد ایک ہی ذات ہے۔ دوسرے جملے میں فرمایا: نماز نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھو، نہ بہت پست آواز سے، بلکہ آواز میں اعتدال رکھو۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: اَلْجَھْرُ بِھَا رَفْعُ الصَّوْتِ وَ التَّخَافُتُ مَا لَمْ تُسْمِعْ نَفْسَکَ وَ اقْرَأ مَا بَیْنَ ذَلِکَ ۔ (وسائل الشیعۃ 6: 98) جۡہَرۡ بہت زیادہ بلند آواز کو کہتے ہیں اور اخفات یہ ہے کہ خود بھی نہ سن سکو۔ ان دونوں کے درمیان اعتدال سے پڑھو۔ یعنی جہری نمازوں کو زیادہ بلند آواز سے نہ پڑھو اور اخفاتی نمازوں کو اتنی پست آواز میں نہ پڑھو کہ تم خود بھی نہ سن سکو اور صرف لبوں کی جنبش رہ جائے۔

وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا﴿۱۱۱﴾٪

۱۱۱۔ اور کہدیجئے: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور نہ وہ ناتواں ہے کہ کوئی اس کی سرپرستی کرے اور اس کی بڑائی کماحقہ بیان کرو۔

111۔ ایک روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اللہ اکبر من کل شیء کہنا اور مفہوم لینا کہ اللہ ہر چیز سے بڑا ہے، غلط تصور ہے کیونکہ اس میں اللہ کا دیگر موجودات سے موازنہ کیا گیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے: اللہ اکبر من ان یوصف ۔ اللہ وصف و بیان کی حد سے بڑا ہے۔ (الکافی 1:117)