بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورہ حجر

اس سورہ میں قوم ثمود، قوم حجر کا ذکر آیا ہے، اس لیے سورہ کا نام حجر ہے۔ بعض آیات کے مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورہ اوائل بعثت میں نازل ہوا ہے۔

الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ وَ قُرۡاٰنٍ مُّبِیۡنٍ﴿۱﴾

۱۔ الف لام را، یہ کتاب اور قرآن مبین کی آیات ہیں۔

1۔ اس سورہ مبارکہ کے تعارفی جملے ہیں کہ یہ سورہ کتاب الٰہی اور صریح البیان قرآن کی آیات پر مشتمل ہے۔ بعض کے نزدیک کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔

رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ کَانُوۡا مُسۡلِمِیۡنَ ﴿۲﴾

۲۔ ایک وقت ایسا ہو گا کہ کافر لوگ آرزو کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔

2۔ اس آیت میں کفر پر قائم رہنے والوں کے لیے تہدید اور ایمان لانے کی تشویق بھی ہے اور اس استہزاء کا بھی اشارہ ہے جس کا کافر سامنا کریں گے۔

ذَرۡہُمۡ یَاۡکُلُوۡا وَ یَتَمَتَّعُوۡا وَ یُلۡہِہِمُ الۡاَمَلُ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ انہیں چھوڑ دیجئے کہ وہ کھائیں اور مزے کریں اور ( طویل )آرزوئیں انہیں غافل بنا دیں کہ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

3۔ ان کافروں پر حجت پوری ہو گئی اور یہ قابل ہدایت نہیں ہیں، انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دیجئے۔ ان کی زندگی کا مقصد خورد و نوش ہے اور وہ آرزوؤں میں مگن ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: أَلَا اِنَّ اَخْوَفَ مَا یُخَافُ عَلَیْکُمْ خَصْلَتَانِ اتَّبَاعُ الْھَوَی وَ طُولُ الْاَمَلِ اَمَّا اتَّبَاعُ الْھَوَی فَیَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ وَ طُولُ الْاَمَلِ یُنْسِی الْآخِرَۃِ ۔ (وسائل الشیعۃ2: 438) مجھے تمہارے بارے میں دو چیزوں کا خوف ہے: خواہشات کی پیروی اور لمبی آرزوئیں۔ خواہشات کی پیروی حق سے باز رکھتی ہے اور لمبی آرزو آخرت کو بھلا دیتی ہے۔

وَ مَاۤ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا وَ لَہَا کِتَابٌ مَّعۡلُوۡمٌ﴿۴﴾

۴۔ اور ہم نے کسی بستی کو ہلاکت میں نہیں ڈالا مگر یہ کہ اس کے لیے ایک معینہ مدت لکھی ہوئی تھی۔

مَا تَسۡبِقُ مِنۡ اُمَّۃٍ اَجَلَہَا وَ مَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ کوئی قوم اپنی معینہ مدت سے نہ آگے نکل سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے۔

5۔ ہر قوم کا ایک صحیفہ عمل ہوتا ہے جس میں اس قوم کی مدتِ حیات درج ہوتی ہے۔ مہلت برائے عمل اور عمل کے مطابق اجل کی بنیاد پر۔

وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡ نُزِّلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ اِنَّکَ لَمَجۡنُوۡنٌ ؕ﴿۶﴾

۶۔ اور (کافر لوگ) کہتے ہیں: اے وہ شخص جس پر ذکر نازل کیا گیا ہے یقینا تو مجنون ہے۔

لَوۡ مَا تَاۡتِیۡنَا بِالۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۷﴾

۷۔ اگر تو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا؟

مَا نُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ مَا کَانُوۡۤا اِذًا مُّنۡظَرِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ (کہدیجئے) ہم فرشتوں کو صرف (فیصلہ کن) حق کے ساتھ ہی نازل کرتے ہیں اور پھر کافروں کو مہلت نہیں دیتے۔

8۔7 تقریباً اکثر رسولوں سے ان کی امتوں نے یہی مطالبہ کیا کہ وہ اپنے دعوائے نبوت کی تصدیق کے لیے فرشتوں کو حاضر کریں۔ جبکہ فرشتوں کا نزول امتحان کے لیے نہیں، بلکہ نتیجۂ امتحان کے موقع پر ہوتا ہے۔

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اس ذکر کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

9۔ اس آیت میں پورے تاکیدی لفظوں کے ساتھ متکلم کی تین ضمیریں اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا لا کر فرمایا: اس ذکر کو ہم نے خود نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی محافظت کریں گے۔ چنانچہ آج اس محافظت کو ہم واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ آسمانی کتابوں میں صرف قرآن مجید لفظ بہ لفظ محفوظ ہے، بلکہ طرز و طریقۂ تحریر تک میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ قرآن مسلمانوں کے ہاتھوں یداً بیدٍ اور نسلاً بعد نسلٍ تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح جنگ احد یا فتح مکہ کا واقعہ تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے۔

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ فِیۡ شِیَعِ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی گزشتہ قوموں میں رسول بھیجے ہیں۔