آیات 10 - 13
 

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ فِیۡ شِیَعِ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی گزشتہ قوموں میں رسول بھیجے ہیں۔

وَ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور ان کے پاس کوئی رسول ایسا نہیں آیا جس کا انہوں نے استہزا نہ کیا ہو۔

کَذٰلِکَ نَسۡلُکُہٗ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اسی طرح ہم اس ذکر کو مجرموں کے دلوں میں سے گزارتے ہیں،

لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ قَدۡ خَلَتۡ سُنَّۃُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ کہ وہ اس (رسول) پر ایمان نہیں لائیں گے اور بے شک پہلوں کی روش بھی یہی رہی ہے۔

تشریح کلمات

شیع:

العین میں آیا ہے: شیعۃ الرجل اصحابہ واتباعۃ ۔ کسی شخص کا شیعہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ساتھی اور تابعدار ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ: ابنیاء و رسل کو استہزاء کا نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں۔یہ تو ہمیشہ ان لوگوں کا حربہ رہا ہے جو منطق نہیں رکھتے۔ تاریخ انبیاء میں کوئی رسول ایسا نہیں گزرا جس کا استقبال لوگوں نے بے تابی سے کیا ہو۔

۲۔ وَ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ: یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے کوئی نبی مستثنیٰ نہیں ہے کہ اس کی قوم نے اس رسول کا مذاق نہ اڑایا ہو، طعنے نہ دیے ہوں اور تحقیر آمیز رویہ اختیار نہ کیا ہو۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو سب سے زیادہ اذیت دی گئی۔ چنانچہ اسی سورہ کی آیت ۹۷ میں ارشاد ہوا:

وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿﴾

اور بتحقیق ہمیں علم ہے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے آپ یقینا دل تنگ ہو رہے ہیں۔

۳۔ کَذٰلِکَ نَسۡلُکُہٗ فِیۡ قُلُوۡبِ: مجرم کے دل میں قساوت اس حد تک ہے کہ ذکر کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا یا اس کے دل میں ذکر کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ از روئے مجازات اس ذکر کو ان کے دلوں سے اتمام حجت کے لیے ایسے گزار دیتا ہے کہ اس ذکر کی برکتوں سے محروم رہے اور ایمان کی نعمت سے بھی۔

اہم نکات

۱۔ یہ قرآن قلب مؤمن کے لیے ٹھنڈک اور قلب مجرم کے لیے آتش ہے۔


آیات 10 - 13