وَ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور ان کے پاس کوئی رسول ایسا نہیں آیا جس کا انہوں نے استہزا نہ کیا ہو۔

کَذٰلِکَ نَسۡلُکُہٗ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اسی طرح ہم اس ذکر کو مجرموں کے دلوں میں سے گزارتے ہیں،

لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ قَدۡ خَلَتۡ سُنَّۃُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ کہ وہ اس (رسول) پر ایمان نہیں لائیں گے اور بے شک پہلوں کی روش بھی یہی رہی ہے۔

وَ لَوۡ فَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوۡا فِیۡہِ یَعۡرُجُوۡنَ ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ روز روشن میں اس پر چڑھتے چلے جائیں۔

لَقَالُوۡۤا اِنَّمَا سُکِّرَتۡ اَبۡصَارُنَا بَلۡ نَحۡنُ قَوۡمٌ مَّسۡحُوۡرُوۡنَ﴿٪۱۵﴾

۱۵۔ تو یہی کہیں گے: ہماری آنکھوں کو یقینا مدہوش کیا گیا بلکہ ہم پر جادو کیا گیا ہے۔

14۔ 15 اگر فرشتوں کو حاضر کرنے سے زیادہ مؤثر یہ قدم اٹھائیں کہ ہم ان کو آسمان کی طرف اٹھا کر لے جائیں اور عجائب آسمانی کا بچشم خود مشاہدہ کرائیں تو بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے اور اسے جادو قرار دیں گے۔ چنانچہ پہلے خلا نورد نے کہا بھی: ایسا لگ رہا تھا کہ ہماری آنکھوں پر جادو کیا گیا ہے۔

وَ لَقَدۡ جَعَلۡنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ زَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیۡنَ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ اور بتحقیق ہم نے آسمانوں میں نمایاں ستارے بنا دیے اور دیکھنے والوں کے لیے انہیں زیبائی بخشی۔

وَ حَفِظۡنٰہَا مِنۡ کُلِّ شَیۡطٰنٍ رَّجِیۡمٍ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ اور ہم نے ہر شیطان مردود سے انہیں محفوظ کر دیا ہے ۔

اِلَّا مَنِ اسۡتَرَقَ السَّمۡعَ فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیۡنٌ﴿۱۸﴾

۱۸۔ ہاں اگر کوئی چوری چھپے سننے کی کوشش کرے تو ایک چمکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے ۔

18۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان نے فضا میں قدم رکھ کر دیکھ لیا ہے کہ آسمان میں ایسے اسرار موجود نہیں ہیں جو چرائے جا سکیں۔ مفسرین نے اس سوال کے جواب میں آیت کی تاویل کی ہے، جبکہ تاویل کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب آیت کا مفہوم کسی امر مسلم سے متصادم ہو۔ یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ انسان نے جس فضا کو تسخیر کیا ہے کائنات کی فضائے بیکراں میں اس کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سورہ ملک: 50 میں فرمایا: ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے آراستہ کیا اور انہیں شیطان کو مارنے کا ذریعہ بنایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن ستاروں کے شہاب سے شیطان کو مارا جاتا ہے ان سے مراد ہماری ارضی فضا کے شہاب نہیں ہو سکتے جو در حقیقت وہ آسمانی پتھر ہیں جو ہر روز اوسطاً دس کھرب کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو کروڑ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں۔ تیز رفتاری سے زمین کی طرف آنے کی وجہ سے وہ شعلۂ آتش بن جاتے ہیں اور ہوائی غلاف سے ٹکرانے پر ہم انہیں آتشیں گولے کی طرح مشاہدہ کرتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے تفسیر کا مطالعہ فرمائیں۔

وَ الۡاَرۡضَ مَدَدۡنٰہَا وَ اَلۡقَیۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ وَ اَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ مَّوۡزُوۡنٍ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ گاڑ دیے اور ہم نے زمین میں معینہ مقدار کی ہر چیز اگائی۔

19۔ زمین سے اگنے والی تمام چیزیں موزوں و معین مقدار میں ہیں اور ان کے وجود اور نشو و نما کا دار و مدار عناصر کے توازن میں ہے۔

وَ جَعَلۡنَا لَکُمۡ فِیۡہَا مَعَایِشَ وَ مَنۡ لَّسۡتُمۡ لَہٗ بِرٰزِقِیۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور ہم نے تمہارے لیے زمین میں سامان زیست فراہم کیا اور ان مخلوقات کے لیے بھی جن کی روزی تمہارے ذمے نہیں ہے۔

20۔ اس زمین میں جیسا کہ انسانوں کے لیے سامان حیات فراہم کیا گیا ہے، ایسے ہی ان جانداروں پرندوں، چرندوں اور بری و بحری حیوانات کے لیے بھی سامان زیست فراہم کیے گئے ہیں، جن کی روزی کسی غیر اللہ کے ذمے نہیں ہے۔