آیات 6 - 8
 

وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡ نُزِّلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ اِنَّکَ لَمَجۡنُوۡنٌ ؕ﴿۶﴾

۶۔ اور (کافر لوگ) کہتے ہیں: اے وہ شخص جس پر ذکر نازل کیا گیا ہے یقینا تو مجنون ہے۔

لَوۡ مَا تَاۡتِیۡنَا بِالۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۷﴾

۷۔ اگر تو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا؟

مَا نُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ مَا کَانُوۡۤا اِذًا مُّنۡظَرِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ (کہدیجئے) ہم فرشتوں کو صرف (فیصلہ کن) حق کے ساتھ ہی نازل کرتے ہیں اور پھر کافروں کو مہلت نہیں دیتے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡ نُزِّلَ: قرآن کو ذِکر اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اساساً نصیحت کی کتاب ہے۔ مشرکین از روئے طنز و استہزاء کہتے ہیں : اے وہ شخص! جس کا یہ دعویٰ ہے کہ اس پر نصیحتوں والی کتاب نازل کی گئی ہے، تو مجنون ہے۔ چونکہ ان کی عقل یہ ہے کہ باپ دادا کی روایات پر قائم رہا جائے۔ وہ اس اندھی تقلید کو عقل کہتے اور عقل سے کام لینے والوں کو مجنون کہتے تھے۔

۲۔ لَوۡ مَا تَاۡتِیۡنَا بِالۡمَلٰٓئِکَۃِ: اکثر رسولوں سے ان کی امتوں نے یہی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے دعوائے نبوت کی تصدیق کے لیے فرشتوں کو حاضر کریں۔

جب کہ فرشتوں کا وجود عالم امتحان و آزمائش سے متعلق نہیں ہے کہ ان کے ذریعے حجت پوری کی جائے بلکہ فرشتے نتیجۂ آزمائش کے لیے اترتے ہیں، پھر مہلت کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ الانعام آیت ۹۔

اہم نکات

۱۔ اللہ اتمام حجت کے لیے فوق الفطرت طاقت استعمال نہیں فرماتا بلکہ خود مختار رکھتا ہے۔

۲۔ جو منطق نہیں رکھتا وہ طاقت یا الزام تراشی کا سہارا لیتا ہے: اِنَّکَ لَمَجۡنُوۡنٌ ۔


آیات 6 - 8