وَ لَوۡ اَنَّنَا نَزَّلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ وَ کَلَّمَہُمُ الۡمَوۡتٰی وَ حَشَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ کُلَّ شَیۡءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ یَجۡہَلُوۡنَ﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی نازل کر دیں اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگیں اور ہر چیز کو ہم ان کے سامنے جمع کر دیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے، مگر اللہ چاہے (تو اور بات ہے)لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت میں ہیں۔

111۔ یعنی اگر ان لوگوں کا مطالبہ قبول کر لیں اور ان پر فرشتے نازل کریں، یہاں تک کہ مردے بھی ان سے بات کریں تو بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ جب کہ تاریخ انبیاء شاہد ہے کہ دریا شق ہو جاتا ہے، پہاڑ سے اونٹنی نکالی جاتی ہے۔ مردے زندہ ہوتے رہے مگر جن لوگوں نے انکار کیا وہ منکر ہی رہے۔ آج بھی یہی ہو گا لاکھ معجزے دکھائے جائیں یہ لوگ منکر ہی رہیں گے مگر جو اللہ چاہے۔ ان کافروں کے لیے اللہ چاہے گا نہیں کیونکہ یہ لوگ خود ہدایت نہیں چاہتے۔ یہ لوگ اہلیت اور اللہ کی رحمت و ہدایت کے ظرف نہیں رکھتے۔

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ یُوۡحِیۡ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرۡہُمۡ وَ مَا یَفۡتَرُوۡنَ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے جن و انس کے شیطانوں کو دشمن قرار دیا ہے جو ایک دوسرے کو فریب کے طور پر ملمع آمیز باتوں کا وسوسہ ڈالتے ہیں اور اگر آپ کا رب چاہتا تو یہ ایسا نہ کر سکتے، پس انہیں بہتان تراشی میں چھوڑ دیں۔

112۔ وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوۡہُ : اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کر سکتے۔ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ حق و باطل دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ ابراہیم علیہ السلام و نمرود، موسیٰ علیہ السلام و فرعون، مصطفیٰ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابوجہل اور حسین علیہ السلام و یزید میں سے ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ حجت و دلیل اور قلب و ضمیر کی راہ سے ایمان چاہتا ہے۔ طاقت استعمال کرنا ہوتی تو یہ کام اللہ کے لیے نہایت آسان تھا۔

وَ لِتَصۡغٰۤی اِلَیۡہِ اَفۡـِٕدَۃُ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ وَ لِیَرۡضَوۡہُ وَ لِیَقۡتَرِفُوۡا مَا ہُمۡ مُّقۡتَرِفُوۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ اور (شیاطین وسوسہ ڈالتے ہیں) تاکہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل (ملمع آمیز باتوں کی طرف) مائل رہیں اور وہ اس سے راضی رہیں اور جن حرکتوں میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں انہی میں مصروف رہیں۔

اَفَغَیۡرَ اللّٰہِ اَبۡتَغِیۡ حَکَمًا وَّ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ اِلَیۡکُمُ الۡکِتٰبَ مُفَصَّلًا ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِّنۡ رَّبِّکَ بِالۡحَقِّ فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو منصف بناؤں؟ حالانکہ اس نے تمہاری طرف مفصل کتاب نازل کی ہے اور جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ قرآن آپ کے رب کی طرف سے برحق نازل ہوا ہے، لہٰذا آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔

114۔ کلام بزبان رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جاری کیا جا رہا ہے گویا یہ حکم ہو رہا ہے کہ اے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ ان منکرین سے کہ دیجیے کہ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے اللہ ہی کی ذات ہے، کیا میں ان کے سوا کسی اور کو منصف بناؤں جب کہ اس نے ہی تمہاری طرف ایک مفصل کتاب نازل کی ہے، لہٰذا جس نے رسالت کا کام میرے ذمہ لگایا ہے میرا وہی منصف ہو گا۔ اس کے علاوہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے۔ وہ اپنی کتابوں میں پڑھ چکے ہیں کہ محمد نبی آخر الزمان صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آنے والے ہیں اور ساتھ ہی وحی و غیر وحی کی تمیز بھی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بارے میں شک و تردد نہ کریں۔ ممکن ہے یہاں پر خطاب ظاہراً رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہو اور دوسروں کو سمجھانا مقصود ہو۔

وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدۡقًا وَّ عَدۡلًا ؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔اور آپ کے رب کا کلمہ سچائی اور عدل کے اعتبار سے کامل ہے، اس کے کلمات کو تبدیل کرنے والا کوئی نہیں اور وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

115۔ اس آیت میں کلمۃ سے مراد فیصلہ، وعدہ اور وعید ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ نے اسلام کی فتح و نصرت کا جو وعدہ کیا تھا اور اسلام کے غلبے کا جو فیصلہ کیا تھا اور مشرکین کی خواری کی جو وعید سنائی تھی وہ سب پورے ہو گئے۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ اللہ کے فیصلوں کو بدلنے والا کوئی نہیں ہے۔

وَ اِنۡ تُطِعۡ اَکۡثَرَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ یُضِلُّوۡکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ اور اگر آپ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیں گے، یہ لوگ تو صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں اور یہ صرف قیاس آرائیاں ہی کیا کرتے ہیں۔

116۔ دنیاوی معاملات میں تو لوگ ظن و گمان پر عمل کرتے ہیں کیونکہ یہاں یقینی صورت تو کم ہی میسر آتی ہے۔ لیکن عقائد و نظریات میں لوگوں کے ظن و گمان گمراہ کن ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہاں ظن و گمان پر عمل کرنا درست نہیں ہے۔

اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ مَنۡ یَّضِلُّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ۚ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ بے شک آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک جائے گا اور ہدایت پانے والوں سے بھی وہ خوب آگاہ ہے۔

فَکُلُوۡا مِمَّا ذُکِرَ اسۡمُ اللّٰہِ عَلَیۡہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ بِاٰیٰتِہٖ مُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ لہٰذا اگر تم اللہ کی نشانیوں پر ایمان رکھتے ہو تو وہ (ذبیحہ) کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔

وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا ذُکِرَ اسۡمُ اللّٰہِ عَلَیۡہِ وَ قَدۡ فَصَّلَ لَکُمۡ مَّا حَرَّمَ عَلَیۡکُمۡ اِلَّا مَا اضۡطُرِرۡتُمۡ اِلَیۡہِ ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا لَّیُضِلُّوۡنَ بِاَہۡوَآئِہِمۡ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُعۡتَدِیۡنَ﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ اور کیا وجہ ہے کہ تم وہ (ذبیحہ) نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو؟ حالانکہ اللہ نے جن چیزوں کو اضطراری حالت کے سوا تم پر حرام قرار دیا ہے ان کی تفصیل اس نے تمہیں بتا دی ہے اور بے شک اکثر لوگ اپنی خواہشات کی بنا پر نادانی میں گمراہ کرتے ہیں، آپ کا رب حد سے تجاوز کرنے والوں کو یقینا خوب جانتا ہے۔

118۔ 119۔ سابقہ آیات میں تمہید باندھنے کے بعد اصل مقصد بیان ہو رہا ہے کہ مشرکین نے جانوروں کے ذبح کے مسئلہ کو اپنے خداؤں کی عبادت کے ساتھ منسلک کر دیا تھا اور ان خداؤں کے نام پر ذبح کرتے تھے اس بنا پر ان دو آیتوں میں ذبیحہ کا حکم عقائد کے ضمن میں بیان فرمایا۔

سیاق آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبیحہ کے بارے میں جو تفصیل اس سے پہلے بتائی جا چکی ہے۔ وہ یا تو اسی سورہ میں آنے والی ایک آیت مراد ہے جس میں مردار، خون اور سور کا گوشت حرام ہونے کا ذکر ہے یا سورہ نحل آیت 115 میں بھی مردار، خون، سور کا گوشت اور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو، کے حرام ہونے کا ذکر ہے اور سورہ نحل مکی ہے ممکن ہے کہ سورہ انعام سے پہلے نازل ہوا ہو۔

وَ ذَرُوۡا ظَاہِرَ الۡاِثۡمِ وَ بَاطِنَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡسِبُوۡنَ الۡاِثۡمَ سَیُجۡزَوۡنَ بِمَا کَانُوۡا یَقۡتَرِفُوۡنَ﴿۱۲۰﴾

۱۲۰۔ اور تم ظاہری اور پوشیدہ گناہوں کو ترک کر دو، جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں بے شک وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔

120۔ ظاہری اور پوشیدہ گناہوں کے بارے میں مختلف اقوال سامنے آتے ہیں، مثلاً ظاہری گناہ وہ ہیں جو اعضا و جوارح سے صادر ہوں۔ پوشیدہ وہ جو دل میں رکھے جائیں۔ مثلاً حسد وغیرہ۔ مگر آیت کا اطلاق کسی تخصیص کو قبول نہیں کرتا۔ لہذا ہر قسم کا گناہ اس میں شامل ہے۔ مثلاً وہ گناہ جس کے بارے میں معاشرے میں احساس گناہ ہے وہ ظاہری ہو گا اور جس کے بارے میں سرے سے احساس گناہ نہیں ہے وہ پوشیدہ گناہ ہو گا وغیرہ۔ سب گناہ کی عمومیت کے لیے یہ تعبیر اختیار فرمایا ہے۔ ظاہری گناہوں میں فحش کاری، غیبت، جھوٹ، چوری، خیانت اور قتل وغیرہ شامل ہیں۔ پوشیدہ گناہوں میں نفاق، تکبر، حسد، طمع، حرص، مومن سے بغض، خود پسندی اور حب دنیا وغیرہ شامل ہیں۔