آیات 116 - 117
 

وَ اِنۡ تُطِعۡ اَکۡثَرَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ یُضِلُّوۡکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ اور اگر آپ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیں گے، یہ لوگ تو صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں اور یہ صرف قیاس آرائیاں ہی کیا کرتے ہیں۔

اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ مَنۡ یَّضِلُّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ۚ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ بے شک آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک جائے گا اور ہدایت پانے والوں سے بھی وہ خوب آگاہ ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِنۡ تُطِعۡ: خطاب اگرچہ رسولؐ سے ہے لیکن سب کو سمجھانا مقصود ہے۔

۲۔ اَکۡثَرَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ: اطاعت، حق کی ہوتی ہے۔ اس میں اکثریت کو دخل نہیں ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے اس سلسلے میں روایت ہے:

الحق لا یعرف بالرجال اعرف الحق تعرف اہلہ ۔ (روضۃ الواعظین ۱: ۳۱ باب الکلام فیما ورد من الاخبار فی ۔۔۔۔ تفسیر القرطبی ۱: ۳۴۰۔ تفسیر البحر المحیط ۸: ۱۲۳)

حق لوگوں کے ذریعے نہیں پہچانا جاتا، پہلے حق کو پہچانو، اہل حق کو پہچان لو گے۔

۳۔ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ: دنیاوی معاملات میں لوگوں کا ظن و تخمین شاید قابل عمل ہو جیساکہ تمام معاشروں میں ظن و گمان پر ہی عمل ہوتا ہے۔ یقینی صورت تو کبھی میسر آتی ہے۔

لیکن الٰہیاتی اور ما بعد الطبیعیاتی معاملات میں لوگوں کے ظن و تخمین گمراہ کن ہوتے ہیں۔ لہٰذا توحید، آخرت اور دینی تعلیمات میں لوگو ں کی قیاس آرائیوں پر چلنا کسی صورت درست نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ مشرکین اپنے قیاس کے ذریعے مسلمانوں پر طنز کرتے تھے کہ یہ لوگ مردار کو، جسے اللہ نے مارا ہے، نہیں کھاتے اور جسے خود مارتے ہیں، اس کو کھاتے ہیں۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۔۔ (۱۷ اسراء: ۳۶)

اور اس کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں۔۔۔

ظن: کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی خبر یا واقعہ کے وقوع پذیر ہونے پر آپ کو اطمینان ہوتا ہے لیکن عدم وقوع کے امکان کو آپ رد نہیں کرتے۔ علم کی صورت میں آپ عدم وقوع کے امکان کو رد کرتے ہیں۔ علم بذات خود حجت ہے لیکن ظن اصول دین میں قطعاً حجت نہیں ہے۔ فروعی احکام میں وہ ظن حجت ہے جس کے حجت ہونے پر علم ہو۔ مثلاً عادل کی خبر حجت ہونے پر قرآنی دلیل سے علم حاصل ہو گیا۔ اس پر عمل کیا جائے گا تو درحقیقت یہ علم حجت ہے جس نے کہا عادل کی خبر کو تسلیم کرو۔

اہم نکات

۱۔ دینی تعلیمات میں قیاس آرائی حجت نہیں ہے: اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ ۔۔۔۔

۲۔ طالبان حق کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ دنیا کی اکثریت کس راستے پر چل رہی ہے۔

۳۔ علم خدا میں ہے کہ کون گمراہ اور کون ہدایت یافتہ ہونے والے ہیں لیکن یہ یاد رکھے کہ علم خدا سے انسان مجبور نہیں ہوتاــ۔


آیات 116 - 117