آیت 115
 

وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدۡقًا وَّ عَدۡلًا ؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔اور آپ کے رب کا کلمہ سچائی اور عدل کے اعتبار سے کامل ہے، اس کے کلمات کو تبدیل کرنے والا کوئی نہیں اور وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

تفسیر آیات

کلمہ اگرچہ مفرد ہے لیکن اس کا اطلاق پورے کلام، خطبے، قصیدے پر ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے اور ایک فیصلہ، پیغام اور وعدہ مراد لیے جاتے ہیں:

وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ۔۔۔۔ (۱۰ یونس: ۱۹)

اور اگر آپ کا پروردگار پہلے طے نہ کر چکا ہوتا تو ان کے درمیان اس بات کا فیصلہ کر دیا جاتا۔۔۔۔

وَ تَمَّتۡ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ (۱۱ ہود: ۱۱۹)

اور تیرے رب کا وہ فیصلہ پورا ہو گیا (جس میں فرمایا تھا) کہ میں جہنم کو ضرور بالضرور جنات اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔

اس آیت میں اللہ کے کلمہ سے مراد فیصلہ، وعدہ اور وعید ہو سکتے ہیں کہ اللہ نے اسلام کی فتح و نصرت کا وعدہ کیا ہے اور اسلام کے غلبہ کا جو فیصلہ اور مشرکین کی شکست و خواری کی جو وعید ہوئی، وہ پوری ہو گئی۔ جیسا کہ فرمایا:

وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ۔ (۶۱ صف: ۸)

اور اللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار برا مانیں۔

صِدۡقًا: یہ وعدہ صادق ثابت ہو گا اور جیسے پہلے خبر دی ہے، اسی کے مطابق واقع ہو گا۔

عَدۡلًا: ہر خبر اور اس کا وقوع عدل و انصاف پر ہو گا۔ اسلام کا غلبہ ہو گا تو اس میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہو گی۔

لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ: یہ اللہ کا اٹل فیصلہ ہے، جس میں کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے:

وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۔ (۳۳ احزاب:۶۲)

اور اللہ کے دستور میں آپ کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

اور آپ اللہ کی سنت یعنی طریقہ عمل میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے رسول (ص) کو اطمینان دلا رہا ہے کہ اے رسولؐ! آپؐ کی فتح و نصرت اور آپؐ کے دشمنوں کی شکست و ذلت کا فیصلہ ہو چکا ہے، جس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آ سکتی ۔

بعض بزرگ مفسرین کلمہ سے شریعت محمدؐ مراد لیتے ہیں کہ شریعت محمدیؐ آنے سے شریعتوں کا ارتقاء، مرحلہ تکمیل کو پہنچ گیا لیکن استعمالات قرآن میں یہ ترکیب کلام کَلِمَتُ رَبِّکَ شریعت کے لیے استعمال نہیں ہوئی۔ پھر لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ بھی قرینہ ہے کہ اس سے مراد احکام و شریعت نہیں ہیں جو قابل نسخ و تبدیلی ہیں بلکہ اللہ کا وعدۂ برحق ہے جو کسی اعتبار سے بھی اس میں تبدیلی لانے والا نہیں ہے۔ نہ خود اللہ تبدیلی لائے گا، نہ غیر اللہ تبدیلی لا سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اس مکی سورہ میں ہونے والا وعدۂ فتح و نصرت، قرآن کا معجزہ ہے۔

۲۔ اللہ کا وعدہ اٹل ہوتا ہے، قابل تغیر و تبدیل نہیں ہوتا: لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۔۔۔۔


آیت 115