وَ لَا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا لَمۡ یُذۡکَرِ اسۡمُ اللّٰہِ عَلَیۡہِ وَ اِنَّہٗ لَفِسۡقٌ ؕ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِہِمۡ لِیُجَادِلُوۡکُمۡ ۚ وَ اِنۡ اَطَعۡتُمُوۡہُمۡ اِنَّکُمۡ لَمُشۡرِکُوۡنَ﴿۱۲۱﴾٪

۱۲۱۔ اور جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اسے نہ کھاؤ کیونکہ یہ سنگین گناہ ہے اور شیاطین اپنے دوستوں کو پڑھاتے ہیں کہ وہ تم سے بحث کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو یقینا تم بھی مشرک بن جاؤ گے۔

121۔ ذبح کرتے وقت جانور پر اللہ کا نام نہ لینے کی چار صورتیں ہیں: 1۔ ذبح کرنے والا مسلمان ہو لیکن اللہ کا نام لینا بھول جائے۔ 2۔ ذبح کرنے والا مسلمان ہو اور جان بوجھ کر اللہ کا نام نہیں لیتا۔ 3۔ ذبح کرنے والا غیر مسلم ہو اور اللہ کا نام نہیں لیتا۔ 4۔ ذبح کرنے والا غیر مسلم ہو اور اللہ کا نام نہیں لیتا اور غیراللہ کا نام لیتا ہے نیز اگر ذبح سرے سے ہوا ہی نہیں تو جانور مُردار ہو جاتا ہے۔ صرف پہلی صورت میں ذبیحہ حلال ہے اور باقی تمام صورتوں میں ذبیحہ حرام ہے۔

اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا فَاَحۡیَیۡنٰہُ وَ جَعَلۡنَا لَہٗ نُوۡرًا یَّمۡشِیۡ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنۡ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیۡسَ بِخَارِجٍ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۲۲﴾

۱۲۲۔ کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور ہم نے اسے روشنی بخشی جس کی بدولت وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پھنسا ہوا ہو اور اس سے نکل نہ سکتا ہو؟ یوں کافروں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا فِیۡ کُلِّ قَرۡیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجۡرِمِیۡہَا لِیَمۡکُرُوۡا فِیۡہَا ؕ وَ مَا یَمۡکُرُوۡنَ اِلَّا بِاَنۡفُسِہِمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔ اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے بڑے بڑے مجرموں کو پیدا کیا کہ وہاں پر (برے) منصوبے بناتے رہیں (درحقیقت) وہ غیر شعوری طور پر اپنے ہی خلاف منصوبے بناتے ہیں۔

123۔ جس طرح اللہ نے بعض کو روشنی بخشی اور بعض کو اندھیرے میں رکھا، اسی طرح اللہ نے کسی میں ہدایت کے لیے نبی مبعوث فرمائے اور کسی بستی میں ایسے اکابر پیدا کیے جو لوگوں کو گمراہ کرتے اور اہل حق کو منحرف کرنے کے منصوبے بناتے تھے۔

کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت ظلم کے خلاف ہوتی ہے اور یہ لوگ ظالم ہوتے ہیں۔ انبیاء عدل و انصاف کی دعوت دیتے ہیں اور عدل و انصاف ہمیشہ مظلوموں کے حق میں اور ظالموں کے خلاف ہوتا ہے، جس سے ان سرداروں کا اقتدار متاثر ہوتا ہے۔

وَ اِذَا جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ حَتّٰی نُؤۡتٰی مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ ؕۘؔ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ ؕ سَیُصِیۡبُ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا صَغَارٌ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَمۡکُرُوۡنَ﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔اور جب کوئی آیت ان کے پاس آتی ہے تو کہتے ہیں: ہم اس وقت تک ہرگز نہیں مانیں گے جب تک ہمیں بھی وہ چیز نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے، اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے، جن لوگوں نے جرم کا ارتکاب کیا انہیں ان کی مکاریوں کی پاداش میں اللہ کے ہاں عنقریب ذلت اور شدید عذاب کا سامنا کرنا ہو گا۔

124۔ انہی سرداروں کا ذکر ہے۔ وہ تکبر اور حسد کی بنا پر کہتے تھے: رسالت کا عہدہ ہمیں کیوں نہیں ملتا؟ ولید بن مغیرہ نے کہا: اگر نبوت حق ہے تو اس کا زیادہ حقدار میں ہوں۔ ابوجہل نے کہا: ہم اس بات پر ہرگز راضی نہ ہوں گے کہ ہم عبد مناف کی اولاد کی اتباع کریں، جب تک ہم پر بھی اسی طرح کی وحی نہ آئے۔ جواب میں فرمایا: الٰہی منصب کس کو دینا چاہیے اور اس بار امانت کو کس کے کاندھوں پر رکھنا چاہیے، اسے اللہ بہتر جانتا ہے۔ الٰہی منصب کا تعین اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا حصہ ہے۔

فَمَنۡ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنۡ یَّہۡدِیَہٗ یَشۡرَحۡ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ ۚ وَ مَنۡ یُّرِدۡ اَنۡ یُّضِلَّہٗ یَجۡعَلۡ صَدۡرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ ؕ کَذٰلِکَ یَجۡعَلُ اللّٰہُ الرِّجۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ پس جسے اللہ ہدایت بخشنا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو ایسا تنگ گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو، ایمان نہ لانے والوں پر اللہ اس طرح ناپاکی مسلط کرتا ہے۔

125۔ جو انسان ہدایت کی اہلیت اور نفس کی طہارت کا حامل ہے اور جس کے پاس قبول حق کے لیے وسیع ظرف موجود ہے، اللہ ایسے شخص کو شرح صدر سے نوازے گا اور جس کو خود اس کی شامت اعمال کے نتیجے میں اللہ گمراہی میں چھوڑ دینا چاہتا ہے وہ مناسب ظرف سے محروم ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اچھی باتیں سن کر اس کا دم گھٹتا ہے، گویا کہ وہ بلندی کی طرف چڑھ رہا ہو۔

وَ ہٰذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسۡتَقِیۡمًا ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّذَّکَّرُوۡنَ﴿۱۲۶﴾

۱۲۶۔ اور یہ آپ کے رب کا سیدھا راستہ ہے، ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نشانیاں واضح کر دی ہیں۔

126۔ 127۔ یہ اسلام جس کے لیے مؤمن کا سینہ کشادہ اور غیر مؤمن کا سینہ تنگ ہوتا ہے، صراط مستقیم ہے۔ اللہ کی آیات میں غور و فکر وہی لوگ کریں گے جن کے سینے میں ظرفیت ہو۔ روز آخرت اللہ کے امن و سلامتی کے گھر (جنت) میں یہی لوگ ہوں گے اور اللہ ہی ان کا (ولی) ہو گا۔ وہاں کسی اور کی حکومت نہیں چلے گی۔

لَہُمۡ دَارُ السَّلٰمِ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَ ہُوَ وَلِیُّہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۲۷﴾

۱۲۷۔ ان کے رب کے ہاں ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے اور ان کے اعمال کے عوض وہی ان کا کارساز ہے۔

وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ۚ یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ قَدِ اسۡتَکۡثَرۡتُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ ۚ وَ قَالَ اَوۡلِیٰٓؤُہُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ رَبَّنَا اسۡتَمۡتَعَ بَعۡضُنَا بِبَعۡضٍ وَّ بَلَغۡنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیۡۤ اَجَّلۡتَ لَنَا ؕ قَالَ النَّارُ مَثۡوٰىکُمۡ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیۡمٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۲۸﴾

۱۲۸۔اور اس دن اللہ سب کو جمع کرے گا (اور فرمائے گا) اے گروہ جنات! تم نے انسانوں(کی گمراہی) میں بڑا حصہ لیا، انسانوں میں سے جنات کے ہمنوا کہیں گے: ہمارے رب! ہم نے ایک دوسرے سے خوب استفادہ کیا ہے اور اب ہم اس وقت کو پہنچ گئے ہیں جو وقت تو نے ہمارے لیے مقرر کر رکھا تھا، اللہ فرمائے گا: اب آتش جہنم ہی تمہارا ٹھکانا ہے جس میں تم ہمیشہ رہو گے سوائے اس کے جسے اللہ(نجات دینا) چاہے،آپ کا رب یقینا بڑا حکمت والا، علم والا ہے۔

128۔ آیہ شریفہ کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بروز قیامت جن و انس سب کو جمع کر کے جنوں سے فرمائے گا: جنو! تم نے انسانوں کو بہکانے، ان کو راہ راست سے ہٹانے کے لیے خوب کام کیا تو جنوں کے ہمنوا اور دوست انسانوں کی طرف سے بھی اعتراف ہو گا اور وہ کہیں گے: ہم نے ایک دوسرے سے خوب فائدہ اٹھایا۔ جنوں کے بہکانے سے انسانوں نے خوب خواہشات سے لذت حاصل کی اور جنوں نے انسانوں کو اپنے پیرو بنا کر خوب مزا اڑایا۔

وَ کَذٰلِکَ نُوَلِّیۡ بَعۡضَ الظّٰلِمِیۡنَ بَعۡضًۢا بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۱۲۹﴾٪

۱۲۹۔ اور اس طرح ہم ظالموں کو ان کے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو وہ کر رہے ہیں ایک دوسرے پر مسلط کریں گے۔

129۔ یعنی جب لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں اور شیطان کی اطاعت کرتے ہیں تو اللہ بھی ان میں سے ہر ایک کو دوسرے پر حاکم اور مسلط بنا دیتا ہے۔ ایک ظالم دوسرے ظالم پر حاکم اور مسلط ہوتا ہے تو وہ مزید ظلم اور گمراہی میں مبتلا کرے گا۔ یہ سب خود ان کے اعمال کا طبعی نتیجہ ہے۔

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ؕ قَالُوۡا شَہِدۡنَا عَلٰۤی اَنۡفُسِنَا وَ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ شَہِدُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا کٰفِرِیۡنَ﴿۱۳۰﴾

۱۳۰۔ اے گروہ جن و انس ! کیا تمہارے پاس خود تم میں سے رسول نہیں آئے تھے جو میری آیات تمہیں سناتے تھے اور آج کے دن کے وقوع کے بارے میں تمہیں متنبہ کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور دنیاوی زندگی نے انہیں دھوکہ دے رکھا تھا اور (آج) وہ اپنے خلاف گواہی دے رہے ہیں کہ وہ کافر تھے۔

130۔ جن و انس کو مجموعاً مخاطب کرکے فرمایا: ہم نے خود تم میں سے رسول بھیجے۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنوں میں بھی انہی میں سے رسول آئے تھے، دوسری بات آیت میں یہ ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ جواب طلبی فرمائے گا تو اس بات کا سب اعتراف کریں گے کہ دین قبول نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ دین کے دلائل ناقابل فہم تھے، بلکہ وجہ یہ تھی کہ دنیاوی زندگی کی رعنائیوں نے انہیں دھوکہ دیا اور انہوں نے دعوت دین کو مسترد کر دیا تھا۔