وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ یُوۡحِیۡ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرۡہُمۡ وَ مَا یَفۡتَرُوۡنَ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے جن و انس کے شیطانوں کو دشمن قرار دیا ہے جو ایک دوسرے کو فریب کے طور پر ملمع آمیز باتوں کا وسوسہ ڈالتے ہیں اور اگر آپ کا رب چاہتا تو یہ ایسا نہ کر سکتے، پس انہیں بہتان تراشی میں چھوڑ دیں۔

112۔ وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوۡہُ : اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کر سکتے۔ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ حق و باطل دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ ابراہیم علیہ السلام و نمرود، موسیٰ علیہ السلام و فرعون، مصطفیٰ ﷺ اور ابوجہل اور حسین علیہ السلام و یزید میں سے ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ حجت و دلیل اور قلب و ضمیر کی راہ سے ایمان چاہتا ہے۔ طاقت استعمال کرنا ہوتی تو یہ کام اللہ کے لیے نہایت آسان تھا۔