آیات 118 - 119
 

فَکُلُوۡا مِمَّا ذُکِرَ اسۡمُ اللّٰہِ عَلَیۡہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ بِاٰیٰتِہٖ مُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ لہٰذا اگر تم اللہ کی نشانیوں پر ایمان رکھتے ہو تو وہ (ذبیحہ) کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔

وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا ذُکِرَ اسۡمُ اللّٰہِ عَلَیۡہِ وَ قَدۡ فَصَّلَ لَکُمۡ مَّا حَرَّمَ عَلَیۡکُمۡ اِلَّا مَا اضۡطُرِرۡتُمۡ اِلَیۡہِ ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا لَّیُضِلُّوۡنَ بِاَہۡوَآئِہِمۡ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُعۡتَدِیۡنَ﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ اور کیا وجہ ہے کہ تم وہ (ذبیحہ) نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو؟ حالانکہ اللہ نے جن چیزوں کو اضطراری حالت کے سوا تم پر حرام قرار دیا ہے ان کی تفصیل اس نے تمہیں بتا دی ہے اور بے شک اکثر لوگ اپنی خواہشات کی بنا پر نادانی میں گمراہ کرتے ہیں، آپ کا رب حد سے تجاوز کرنے والوں کو یقینا خوب جانتا ہے۔

۱۱۹۔ اور کیا وجہ ہے کہ تم وہ (ذبیحہ) نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو؟ حالانکہ اللہ نے جن چیزوں کو اضطراری حالت کے سوا تم پر حرام قرار دیا ہے، ان کی تفصیل اس نے تمہیں بتا دی ہے اور بے شک اکثر لوگ اپنی خواہشات کی بنا پر نادانی میں گمراہ کرتے ہیں، آپ کا رب حد سے تجاوز کرنے والوں کو یقینا خوب جانتا ہے۔

تفسیر آیات

سابقہ آیات میں تمہید باندھنے کے بعد اصل مقصد بیان ہو رہا ہے کہ مشرکین نے جانوروں کے ذبح کے مسئلہ کو اپنے خداؤں کی عبادت کے ساتھ منسلک کر دیا تھا اور ان خداؤں کے نام پر ذبح کرتے تھے۔ اس بنا پر ان دو آیات میں ذبیحہ کا حکم عقائد کے ضمن میں بیان فرمایا۔

سیاق آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبیحہ کے بارے میں تفصیل اس سے پہلے بتائی جا چکی ہے۔ وہ یا تو اسی سورہ میں آنے والی ایک آیت مراد ہے، جس میں مردار، خون اور سور کا گوشت حرام ہونے کا ذکر ہے یا سورہ نحل آیت ۱۱۵ میں بھی مردار، خون، سور کا گوشت اور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو، کے حرام ہونے کا ذکر ہے۔سورہ نحل مکی ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ سورہ انعام سے پہلے نازل ہوا ہو۔

۱۔ اِلَّا مَا اضۡطُرِرۡتُمۡ: اضطرار یہ ہے کہ ہلاکت کا خطرہ ہو اور بچنے کے لیے مردار کے علاوہ کوئی چیز نہ ملے۔

۲۔ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا لَّیُضِلُّوۡنَ بِاَہۡوَآئِہِمۡ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ: اس جملے سے معلوم ہوا کہ گمراہ ہونے کے دو اہم عوامل ہیں: ایک خواہش پرستی اور دوسرا جہالت۔ لہٰذا ہمارے ہاں ’’اکثر لوگ کہتے ہیں‘‘ ، ’’ اکثر لوگ مانتے ہیں‘‘ کی بنیاد پر دلیل قائم نہیں ہوتی جب کہ عام لوگ کثیراً اور اکثر من فی الارض کو معیار بناتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ گمراہی کے دو اسباب، نادانی اور خواہش پرستی ہیں: لَّیُضِلُّوۡنَ بِاَہۡوَآئِہِمۡ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ۔۔۔۔

۲۔ اضطراری حالت میں انسانی خون اور عصمت کے علاوہ تمام احکام میں لچک آ جاتی ہے۔


آیات 118 - 119