وَ لَوۡ کَانُوۡا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ النَّبِیِّ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مَا اتَّخَذُوۡہُمۡ اَوۡلِیَآءَ وَ لٰکِنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور اگر وہ اللہ اور نبی اور ان کی طرف نازل کردہ کتاب پر ایمان رکھتے تو ایسے لوگوں سے دوستی نہ کرتے مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الۡیَہُوۡدَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقۡرَبَہُمۡ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنۡہُمۡ قِسِّیۡسِیۡنَ وَ رُہۡبَانًا وَّ اَنَّہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔(اے رسول) اہل ایمان کے ساتھ عداوت میں یہود اور مشرکین کو آپ پیش پیش پائیں گے اور ایمان والوں کے ساتھ دوستی میں انہیں قریب تر پائیں گے، جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں عالم اور درویش صفت لوگ ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ۔

82۔ یہ بات محتاج بیان نہیں کہ یہود اسلام دشمنی میں کس قدر آگے رہے ہیں، البتہ یہ بات غور طلب ہے کہ نصاریٰ مسلمانوں سے دوستی میں آگے ہیں۔ اگرچہ صلیبی جنگوں سے آج تک اسلام کے خلاف یہودیوں اور اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے عیسائیوں نے اپنی اسلام دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، تاہم جب اسلام کی دعوت چہار دانگ عالم پھیل رہی تھی تو یہودیوں کی نسبت عیسائی سربراہوں نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔ چنانچہ حبشہ کے ”نجاشی“، روم کے ”ہرقل“ اور مصر کے مقوقس نے اس دعوت پر یا تو لبیک کہی یا اچھے ردعمل کا اظہار کیا۔ آج تک مسیحی کثیر تعداد میں اسلام قبول کرتے آئے ہیں لیکن یہودیوں کے قبول اسلام کا اتفاق بہت کم نظر آتا ہے۔

وَ اِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَی الرَّسُوۡلِ تَرٰۤی اَعۡیُنَہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَقِّ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ اور جب وہ رسول کی طرف نازل ہونے والے کلام کو سنتے ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ معرفت حق کی بدولت ان کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، وہ کہتے ہیں: ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے ہیں پس ہمیں گواہی دینے والوں میں شامل فرما

83۔ ہجرت نبوی سے پہلے مسلمانوں کی ایک جماعت نے ملک حبشہ کی طرف ہجرت کی اور ایک مرتبہ نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر طیارؓ نے سورﮤ مریم کی چند آیات پڑھ کر سنائیں جس پر نجاشی اور ان کے علماء کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اس سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ سابقہ اور یہ آیت دونوں نجاشی اور اس جیسے نصرانیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔

وَ مَا لَنَا لَا نُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ مَا جَآءَنَا مِنَ الۡحَقِّ ۙ وَ نَطۡمَعُ اَنۡ یُّدۡخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الۡقَوۡمِ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور ہم اللہ پر اور اس حق پر کیوں نہ ایمان لائیں جو ہمارے پاس آیا ہے؟ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک بندوں کی صف میں شامل کر لے گا۔

فَاَثَابَہُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوۡا جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔اللہ نے اس قول کے عوض انہیں ایسی جنتوں سے نوازا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور نیکو کاروں کا یہی صلہ ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ﴿٪۸۶﴾

۸۶۔اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کر دی ہیں انہیں حرام نہ کرو اور حد سے تجاوز بھی نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔

87۔ اسلام دین فطرت ہونے کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ہر حکم کے لیے فطری تقاضے پیش نظر ہوں۔ لہٰذا جب ایک طرف کھانے پینے کا محتاج ہو اور مختلف چیزوں کی لذت سے محظوظ ہونے کا فطری ذوق بھی موجود ہو، دوسری طرف زمین میں مختلف لذتوں کی چیزیں بھی اللہ نے پیدا کی ہوں، پھر کیسے ممکن ہے کہ یہ چیزیں بندوں پر حرام ہوں۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی نفی ہوتی ہے جو عیسائی راہبوں، ہندؤں، بدھ مت کے پیروکاروں اور تصوف زدہ افراد کی طرح ترک لذات کو روحانی ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں۔ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں کچھ لوگ اس ذہنیت کے طرفدار ہو گئے تھے، چنانچہ اس بارے میں حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے پاک چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے؟ دیکھو میں رات کو سوتا ہوں، نکاح کرتا ہوں، دن کو گاہے روزہ رکھتا ہوں اور گاہے نہیں بھی رکھتا۔ جو میری سنت پر نہ چلے وہ مجھ سے نہیں ہے۔

لَا تُحَرِّمُوۡا : کسی چیز کو حلال اور حرام قرار دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ قانون سازی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا حصہ ہے۔ اس میں مداخلت اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہے۔ لہٰذا کسی غیر اللہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی حلال کو حرام یا کسی حرام کو حلال کرے۔ اسی لیے فقیہ پابند ہے کہ اللہ کی طرف سے تعین شدہ دلیلوں کی روشنی میں حلال حرام کو بیان کرے، جیسے قرآن و حدیث اور اگر جس چیز کو اللہ نے دلیل نہیں بنایا، اس کے ذریعے حلال و حرام ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہے۔

وَ کُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلًا طَیِّبًا ۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اَنۡتُمۡ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ اور جو حلال اور پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہیں عنایت کر رکھی ہیں ان میں سے کھاؤ اور اس اللہ کا خوف کرو جس پر تمہارا ایمان ہے۔

88۔ رزق خدا سے استفادہ کرنے کا حکم ہے۔ البتہ دو شرائط کے ساتھ :اول یہ کہ حلال اور پاکیزہ طریقے سے استفادہ کیا جائے۔ دوم یہ کہ تقویٰ اور خوف خدا کے ساتھ ہو۔

لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمَانَ ۚ فَکَفَّارَتُہٗۤ اِطۡعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیۡنَ مِنۡ اَوۡسَطِ مَا تُطۡعِمُوۡنَ اَہۡلِیۡکُمۡ اَوۡ کِسۡوَتُہُمۡ اَوۡ تَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ ؕ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ؕ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیۡمَانِکُمۡ اِذَا حَلَفۡتُمۡ ؕ وَ احۡفَظُوۡۤا اَیۡمَانَکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔ اللہ تمہاری بے مقصد قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جو سنجیدہ قسمیں تم کھاتے ہو ان کا مواخذہ ہو گا، پس اس (قسم توڑنے) کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑا پہنانا یا غلام آزاد کرنا ہے اور جسے یہ میسر نہ ہو وہ تین دن روزے رکھے،جب تم قسم کھاؤ (اور اسے توڑ دو) تو یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اللہ اسی طرح اپنی آیات تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔

89۔ اگر بلا ارادہ زبان سے قسم کا لفظ نکل جائے تو اس کا کوئی کفارہ نہیں، کیونکہ قسم میں قصد و ارادہ شرط ہے۔ البتہ کسی امر میں پختہ قصد و ارادے کے ساتھ قسم کھائی جائے تو اسے توڑنے کی صورت میں کفارہ لازم ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔اے ایمان والو!شراب اور جوا اور مقدس تھان اور پانسے سب ناپاک شیطانی عمل ہیں پس اس سے پرہیز کرو تاکہ تم نجات حاصل کر سکو۔

90۔ دور جاہلیت میں مشرکین جن پتھروں کی پوجا کرتے تھے ان کو انصاب کہتے ہیں، جبکہ ازلام ان تیروں کو کہتے ہیں جن کے ذریعے عرب دور جاہلیت میں قسمت آزمائی کرتے اور فال نکالتے تھے۔