آیات 84 - 86
 

وَ مَا لَنَا لَا نُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ مَا جَآءَنَا مِنَ الۡحَقِّ ۙ وَ نَطۡمَعُ اَنۡ یُّدۡخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الۡقَوۡمِ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور ہم اللہ پر اور اس حق پر کیوں نہ ایمان لائیں جو ہمارے پاس آیا ہے؟ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک بندوں کی صف میں شامل کر لے گا۔

فَاَثَابَہُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوۡا جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔اللہ نے اس قول کے عوض انہیں ایسی جنتوں سے نوازا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور نیکو کاروں کا یہی صلہ ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ﴿٪۸۶﴾

۸۶۔اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔

تفسیر آیات

یہ ان لوگوں کے اوصاف ہیں جو اہل اسلام سے محبت رکھتے ہیں اور ایمان لانے کے لیے آمادہ ہیں۔

۱۔ وَ مَا لَنَا لَا نُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ: تاریکی چھٹ جانے سے حق نظر آنے کے بعد ہم کیوں ایمان نہیں لائیں گے۔

۲۔ وَ نَطۡمَعُ اَنۡ یُّدۡخِلَنَا: ہمیں امید ہے کہ حق کی معرفت کے بعد ہم نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے کہ ہم صالحین کی صف میں شامل ہو جائیں۔

۳۔ فَاَثَابَہُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوۡا: ان لوگوں نے ایمان کے اظہار میں جو باتیں کہی ہیں، ان باتوں کے عوض میں اللہ انہیں جنت عطا فرمائے گا۔ ایمان کے لیے پہلا مرحلہ اقرار باللسان ہے، لہٰذا فرمایا بِمَا قَالُوۡا جو باتیں ان لوگوں نے کی ہیں، ان کے عوض میں اللہ نے ان کو ثواب میں جنت عنایت فرمائی۔

اہم نکات

۱۔ معرفت حق کے بعد ایمان نہ لانا، معقول نہیں۔

۲۔ صالحین میں شامل ہونے کی آرزو و امید ایمان لانے پر موقوف ہے۔

۳۔ مثبت باتوں کا بھی صلہ ہوتا ہے: فَاَثَابَہُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوۡا ۔۔۔۔


آیات 84 - 86