آیات 87 - 88
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کر دی ہیں انہیں حرام نہ کرو اور حد سے تجاوز بھی نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔

وَ کُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلًا طَیِّبًا ۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اَنۡتُمۡ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ اور جو حلال اور پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہیں عنایت کر رکھی ہیں ان میں سے کھاؤ اور اس اللہ کا خوف کرو جس پر تمہارا ایمان ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تُحَرِّمُوۡا : اہل ایمان کی توجہ ان کے ایمان کے تقاضوں کی طرف دلائی جا رہی ہے کہ کائنات پر، خواہ عالم تکوین و تخلیق ہو یا عالم تشریع و تقنین، اللہ کی حاکمیت ہے۔ اس میں دخل اندازی نہ کرو اور حلال و حرام کی شریعت سازی کا کام اپنے ہاتھ میں مت لو۔ حلال و حرام وہی ہے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔ اللہ کے مقرر کردہ احکام کو اعتنا میں نہ لانا، اس کی طرف سے قائم کردہ حد سے تجاوز کے مترادف ہے۔

۲۔ وَ کُلُوۡا: پاکیزہ اور حلال روزی کھاؤ۔ اسلام دین فطرت ہونے کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ انسانی فطرت اور اس کے کائناتی تقاضے اسلام کے ہر حکم کے پیش نظر ہوں۔ ایک طرف انسان کو کھانے پینے کی ضرورت ہو اور دنیا کی مختلف چیزوں سے لذت حاصل کرنے کی صلاحیت بھی اس میں ودیعت فرمائی گئی ہو، پھر ان سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت بھی ہو، ممکن نہیں ہے اور زمین میں صرف بقائے حیات کی محدود چیزیں نہیں ہیں، یہ مقصد تو صرف گندم یا جو کے دانے سے بھی پورا ہو سکتا ہے، بلکہ مختلف رنگ اور مختلف لذت کی ہزاروں چیزوں کو زمین میں پیدا کر کے ان کو اپنے بندوں پر حرام کر دے، کیسے ممکن ہے:

قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ قُلۡ ہِیَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا خَالِصَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۳۲)

اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق کو کس نے حرام کیا؟ : یہ چیزیں دنیاوی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی۔۔۔۔

البتہ شریعت اور قانون پر ایمان و عمل ضروری ہے جس کے تحت ان میں سے حلال اور پاکیزہ چیزوں کی پہچان ہو جاتی ہے۔

اس سے ان لوگوں کے اس خیال کی رد ہو گئی جو عیسائی راہبوں، ہندؤں، بدھ مذہب کے لوگوں اور تصوف زدہ افراد کی طرح ترک لذات کو روحانی ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں۔

حضورؐ کے زمانے میں کچھ لوگ اس ذہنیت کے ہو گئے تھے تو ان کے بارے میں حضورؐ نے خطبہ دیا اور فرمایا:

ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے پاک چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر دیا ہے۔ دیکھو میں رات کو سوتا ہوں، نکاح کرتا ہوں، دن کوروزہ رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ جو میری سنت پر عمل نہ کرے، وہ مجھ سے نہیں ہے۔ (الوسائل ۲۳: ۲۴۳)

اہم نکات

۱۔اسلام میں رہبانیت (ترک دنیا) کا تصور نہیں ہے۔

۲۔تخلیق ہو یا تقنین، ہر چیز پر اللہ کی حاکمیت ہے۔ بندہ اپنی طرف سے دخل نہیں کر سکتا۔

۳۔ایمان کا لازمہ تقویٰ ہے۔ یقین کا لازمہ خوف ہے۔ جیسا کہ بے یقین کا لازمہ لاابالی ہے: وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اَنۡتُمۡ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ ۔


آیات 87 - 88