لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الۡیَہُوۡدَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقۡرَبَہُمۡ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنۡہُمۡ قِسِّیۡسِیۡنَ وَ رُہۡبَانًا وَّ اَنَّہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔(اے رسول) اہل ایمان کے ساتھ عداوت میں یہود اور مشرکین کو آپ پیش پیش پائیں گے اور ایمان والوں کے ساتھ دوستی میں انہیں قریب تر پائیں گے، جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں عالم اور درویش صفت لوگ ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ۔

82۔ یہ بات محتاج بیان نہیں کہ یہود اسلام دشمنی میں کس قدر آگے رہے ہیں، البتہ یہ بات غور طلب ہے کہ نصاریٰ مسلمانوں سے دوستی میں آگے ہیں۔ اگرچہ صلیبی جنگوں سے آج تک اسلام کے خلاف یہودیوں اور اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے عیسائیوں نے اپنی اسلام دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، تاہم جب اسلام کی دعوت چہار دانگ عالم پھیل رہی تھی تو یہودیوں کی نسبت عیسائی سربراہوں نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔ چنانچہ حبشہ کے ”نجاشی“، روم کے ”ہرقل“ اور مصر کے مقوقس نے اس دعوت پر یا تو لبیک کہی یا اچھے ردعمل کا اظہار کیا۔ آج تک مسیحی کثیر تعداد میں اسلام قبول کرتے آئے ہیں لیکن یہودیوں کے قبول اسلام کا اتفاق بہت کم نظر آتا ہے۔