رہبانیت کی مذمت


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کر دی ہیں انہیں حرام نہ کرو اور حد سے تجاوز بھی نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔

87۔ اسلام دین فطرت ہونے کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ہر حکم کے لیے فطری تقاضے پیش نظر ہوں۔ لہٰذا جب ایک طرف کھانے پینے کا محتاج ہو اور مختلف چیزوں کی لذت سے محظوظ ہونے کا فطری ذوق بھی موجود ہو، دوسری طرف زمین میں مختلف لذتوں کی چیزیں بھی اللہ نے پیدا کی ہوں، پھر کیسے ممکن ہے کہ یہ چیزیں بندوں پر حرام ہوں۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی نفی ہوتی ہے جو عیسائی راہبوں، ہندؤں، بدھ مت کے پیروکاروں اور تصوف زدہ افراد کی طرح ترک لذات کو روحانی ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں۔ حضور ﷺ کے زمانے میں کچھ لوگ اس ذہنیت کے طرفدار ہو گئے تھے، چنانچہ اس بارے میں حضور ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے پاک چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے؟ دیکھو میں رات کو سوتا ہوں، نکاح کرتا ہوں، دن کو گاہے روزہ رکھتا ہوں اور گاہے نہیں بھی رکھتا۔ جو میری سنت پر نہ چلے وہ مجھ سے نہیں ہے۔

لَا تُحَرِّمُوۡا : کسی چیز کو حلال اور حرام قرار دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ قانون سازی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا حصہ ہے۔ اس میں مداخلت اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہے۔ لہٰذا کسی غیر اللہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی حلال کو حرام یا کسی حرام کو حلال کرے۔ اسی لیے فقیہ پابند ہے کہ اللہ کی طرف سے تعین شدہ دلیلوں کی روشنی میں حلال حرام کو بیان کرے، جیسے قرآن و حدیث اور اگر جس چیز کو اللہ نے دلیل نہیں بنایا، اس کے ذریعے حلال و حرام ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہے۔