بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ ۚ﴿۱﴾

۱۔ یہ لوگ کس چیز کے بارے میں باہم سوال کر رہے ہیں ؟

عَنِ النَّبَاِ الۡعَظِیۡمِ ۙ﴿۲﴾

۲۔ کیا اس عظیم خبر کے بارے میں؟

الَّذِیۡ ہُمۡ فِیۡہِ مُخۡتَلِفُوۡنَ ؕ﴿۳﴾

۳۔ جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں؟

1 تا 3 ابتدائے بعثت میں نازل ہونے والی آیات میں قرآن قیامت کو سب سے زیادہ اہمیت دے کر بیان کرتا ہے، کیونکہ مشرکین قیامت کے بارے میں چہ میگوئیاں کرتے تھے۔ کبھی ناممکن و محال قرار دیتے، کبھی اسے نامعقول قرار دیتے ہوئے سوال کرتے تھے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ گل سڑ کر خاک ہونے کے بعد ہم دوبارہ زندہ ہو جائیں؟ منکروں پر رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہر خبر گراں گزرتی تھی۔ عیناً یہی حالت کچھ ایسے لوگوں کی بھی تھی جن پر عند اللّٰہ و عند الرسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی علیہ السلام کے مقام و منزلت کی ہر حدیث گراں گزرتی تھی۔ چنانچہ امامیہ مصادر میں تواتر سے ثابت ہے کہ اس کے مصداق میں علی علیہ السلام کی ولایت ہے۔ چنانچہ شعراء نے بھی اپنے اشعار میں اسے ایک مسلمہ امر کے طور پر ذکر کیا ہے:

ھو النباء العظیم و فلک نوح

و باب اللہ و انقطع الخطاب

(الصراط المستقیم 1 :259)

کَلَّا سَیَعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

۴۔ (جیسے مشرکین سوچتے ہیں ایسا) ہرگز نہیں! عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

ثُمَّ کَلَّا سَیَعۡلَمُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ پھر (کہتا ہوں ایسا) ہرگز نہیں! عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا (کہ قیامت برحق ہے)۔

اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ مِہٰدًا ۙ﴿۶﴾

۶۔ کیا ہم نے زمین کو گہوارہ نہیں بنایا؟

غیر امامیہ مصادر میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو ابوبکر بن مومن شیرازی کی کتاب الاعتقادات میں سدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ولایۃ علی یتساء لون عنھافی قبورہم۔۔۔ علی علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں ان سے قبروں میں سوال ہو گا۔ ملاحظہ ہو حاشیہ احقاق الحق 3: 485۔

6۔ زمین کو گہوارہ بنایا اور اسے حرکت کے باوجود پرسکون اور زندگی کے لیے نامساعد فضا میں سامان زیست سے سرشار بنایا۔

وَّ الۡجِبَالَ اَوۡتَادًا ﴿۪ۙ۷﴾

۷۔اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا؟

7۔ ارضیاتی ماہرین کے مطابق زمین کی پچاس کلومیٹر کی گہرائی میں درجہ حرارت 1500 سینٹی گریڈ ہے، جہاں پتھر پگھل جاتے ہیں، مگر اوپر کے دباؤ کی وجہ سے سیال نہیں ہوتے۔ 3000 کلومیٹر کی گہرائی سے زمین کا آہنی مرکزی حصہ شروع ہوتا ہے۔ اس آہنی مرکز کے اوپر زمین کا ٹائٹل جامد صورت میں ہے۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو حرکت زمین کی وجہ سے اس کا بیرونی ٹائٹل آہنی مرکز کے اوپر ڈول جاتا۔ اَنۡ تَمِیۡدَ بِکُمۡ ۔ یہ پہاڑ ہیں جو اوپر سے سربفلک ہونے کے ساتھ اس سے کئی گنا زیر زمین جڑیں گاڑے ہوئے ہیں اور بیرونی ٹائٹل کو مرکز کے ساتھ بالکل میخوں اَوۡتَادًا کی طرح جوڑ رکھا ہے۔ جل الخالق ۔

وَّ خَلَقۡنٰکُمۡ اَزۡوَاجًا ۙ﴿۸﴾

۸۔ اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا ۔

وَّ جَعَلۡنَا نَوۡمَکُمۡ سُبَاتًا ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور ہم نے تمہاری نیند کو (باعث) سکون بنایا۔

سُبَاتً معطل کرنے کو کہتے ہیں۔ نیند کی حالت میں انسان کی تمام قوتیں معطل اور جمود کی حالت میں ہوتی ہیں۔ دن کی سرگرمیوں کی وجہ سے صرف شدہ انرجی کو دوبارہ چارج کرنے کے لیے قدرت کی طرف سے یہ نیند ایک عظیم معجزہ ہے۔ دن میں منتشر شدہ انرجی کی بحالی اور واپسی جس ذات کے لیے ممکن ہے، وہ بدن کے منتشر شدہ اجزا کے اعادہ پر بھی قدرت رکھتی ہے۔

وَّ جَعَلۡنَا الَّیۡلَ لِبَاسًا ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور رات کو ہم نے پردہ قرار دیا۔