آیت 3
 

الَّذِیۡ ہُمۡ فِیۡہِ مُخۡتَلِفُوۡنَ ؕ﴿۳﴾

۳۔ جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں؟

تفسیر آیات

اگر ہُمۡ سے مراد مشرکین ہیں تو ان میں معاد کے بارے میں اختلاف نہیں ہے بلکہ اتفاق ہے کہ معاد نہیں ہے۔ لہٰذا اختلاف سے مراد آراء و نظریات کا رد و بدل ہے کہ مشرکین معاد کے ناممکن ہونے پر مختلف باتیں کرتے ہیں۔ اگر ہُمۡ سے مراد سب لوگ ہیں تو اختلاف سے مراد نفی و اثبات ہے۔ مشرکین نفی کرتے ہیں اور مسلمان اثبات کرتے ہیں لیکن بعد کی آیات کَلَّا سَیَعۡلَمُوۡنَ قرینہ بن سکتی ہیں کہ ہُمۡ سے مراد مشرکین ہیں۔

نبوت اور ولایت: جس طرح منکروں پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہر خبر گراں گزرتی تھی یہی حالت کچھ ایسے لوگوں کی بھی تھی جن پر عنداللہ و عندالرسول حضرت علی علیہ السلام کے مقام و منزلت کی ہر حدیث گراں گزرتی تھی۔

چنانچہ امامیہ مصادر میں تقریباً تواتر سے ثابت ہے کہ نباء عظیم کا ایک مصداق حضرت علی علیہ السلام کی ولایت ہے۔ چنانچہ شعراء نے بھی اپنے اشعار میں اسے ایک مسلّمہ امر کے طور پر ذکر کیا ہے:

ہو النبأ العظیم وفلک نوح

وباب اللہ وانقطع الخطاب

وہ (علی علیہ السلام) نباء عظیم اور نوح کی کشتی ہیں اور اللہ تک پہنچنے کا دروازہ ہے۔

قصہ مختصر عمرو بن عاص نے معاویہ سے خطاب کر کے اپنے معروف اشعار میں جو ’’اشعار جلجلہ‘‘ کے نام سے مشہور ہیں کہا:

نصرناک من جھلنا یا ابن ھند

علی النبأ الاعظم الافضل

اے ہندہ کے بیٹے! ہم نے اپنی نادانی کی وجہ سے نبأ عظیم اور افضل کے خلاف تمہاری مدد کی۔

غیر شیعہ مصادر میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ ابوبکر بن مؤمن شیرازی نے اپنی کتاب الاعتقادات میں سدی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نباء عظیم کے بارے میں فرمایا:

ولایۃ علی یتساء لون عنھا فی قبورھم۔ (شواھد التنزیل ۳: ۴۱۸۔ حواشی احقاق الحق ۳: ۴۸۵)

یہ ولایت علی کے بارے میں ہے ان سے قبروں میں اس ولایت کے بارے میں سوال ہوگا۔

واضح رہے قرآن اگر کسی موضوع کے بارے میں نازل ہوتا ہے اور لفظ اور تعبیر میں عموم یا اطلاق ہو تو اس صورت میں قرآن صرف اس موضوع تک محدود نہیں رہتا جس کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ ایسا ہو تو قرآن محدود ہو جائے گا بلکہ اپنے مصادیق پر قیامت تک صادق آتا رہتا ہے۔ اسے علم تفسیر میں اس طرح بیان کرتے ہیں:

العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب۔

اعتبار لفظ کے عموم کا کیا جاتا ہے، نہ سبب نزول کے خصوص کا۔

لہٰذا اگر کسی روایت میں ایک مصداق کا ذکر آتا ہے تو یہ فہم قرآن کے اس مسلمہ اصول کے عین مطابق ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے قرآن کے بارے میں فرمایا:

انہ یجری کما یجری اللیل و النھار۔ (تفسیر عیاشی۲: ۲۰۳)

قرآن شب و روز کی طرح (اپنے مصادیق پر) جاری رہتا ہے۔


آیت 3