وَّ جَعَلۡنَا النَّہَارَ مَعَاشًا ﴿۪۱۱﴾

۱۱۔ اور دن کو ہم نے معاش (کا ذریعہ) بنایا۔

وَّ بَنَیۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعًا شِدَادًا ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور تمہارے اوپر ہم نے سات مضبوط آسمان بنائے۔

وَّ جَعَلۡنَا سِرَاجًا وَّہَّاجًا ﴿۪ۙ۱۳﴾

۱۳۔ اور ہم نے ایک روشن چراغ بنایا۔

وَّ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡمُعۡصِرٰتِ مَآءً ثَجَّاجًا ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ اور بادلوں سے ہم نے موسلادھار پانی برسایا۔

14۔ الۡمُعۡصِرٰتِ : بارش دینے والے بادل کو کہتے ہیں۔ بعض کے نزدیک الۡمُعۡصِرٰتِ وہ ہوا ہے جو بادلوں پر دباؤ ڈالتی ہے جس سے بارش برستی ہے۔ روایت میں الۡمُعۡصِرٰتِ بارش دینے کے معنوں میں آیا ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر عیاشی۔

ثجاج اس بارش کو کہتے ہیں جو موسلادھار ہو۔

لِّنُخۡرِجَ بِہٖ حَبًّا وَّ نَبَاتًا ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ تاکہ ہم اس سے غلہ اور سبزیاں اگائیں۔

وَّ جَنّٰتٍ اَلۡفَافًا ﴿ؕ۱۶﴾

۱۶۔ اور گھنے باغات اگائیں۔

اِنَّ یَوۡمَ الۡفَصۡلِ کَانَ مِیۡقَاتًا ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ یقینا فیصلے کا دن مقرر ہے۔

یَّوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ فَتَاۡتُوۡنَ اَفۡوَاجًا ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ اس دن صور میں پھونک ماری جائے گی تو تم لوگ گروہ در گروہ نکل آؤ گے۔

18۔ گروہ در گروہ کے بارے میں براء بن عاذب کی ایک روایت ہے، جسے بحار الانوار 7: 89 میں الکشاف 4: 687 میں ذکر کیا گیا ہے، جس میں رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ ان دس (10) گروہوں کے بارے ہے جنہیں قیامت کے دن مختلف شکلوں میں اٹھایا جائے گا۔ ان میں چغل خور، حرام خور، ربا خور، غیر عادل قاضی، اپنے اعمال پر ناز کرنے والے، بے عمل علماء، ہمسایوں کو اذیت دینے والے، تکبر و نخوت والے، شہوت پرستی کرنے والے، حکمرانوں کے پاس چغل خوری کرنے والے کا ذکر ملتا ہے۔ تفصیل مذکورہ کتب میں موجود ہے۔

وَّ فُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَتۡ اَبۡوَابًا ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ اور آسمان کھول دیے جائیں گے تو دروازے ہی دروازے ہوں گے۔

19۔ قیامت برپا ہونے کا مطلب ایک کائناتی انقلاب ہے۔ اس انقلاب کے بعد آسمان کے دروازے کھل جائیں گے اور آسمانوں کی طرف اور جنت میں جانا ممکن ہو جائے گا۔

وَّ سُیِّرَتِ الۡجِبَالُ فَکَانَتۡ سَرَابًا ﴿ؕ۲۰﴾

۲۰۔ اور پہاڑ چلا دیے جائیں گے تو وہ سراب ہو جائیں گے۔