آیات 4 - 5
 

کَلَّا سَیَعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

۴۔ (جیسے مشرکین سوچتے ہیں ایسا) ہرگز نہیں! عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

ثُمَّ کَلَّا سَیَعۡلَمُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ پھر (کہتا ہوں ایسا) ہرگز نہیں! عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا (کہ قیامت برحق ہے)۔

تفسیر آیات

۱۔ کَلَّا: جیسے مشرکین سوچتے ہیں ایسا ہرگز نہیں کہ قیامت کا وقوع ہونا ناممکن ہے یا قیامت آنے والی نہیں ہے۔

۲۔ سَیَعۡلَمُوۡنَ: عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا کی قیامت برحق ہے۔ قیامت کے بارے علم و یقین موت کے مرحلے میں داخل ہوتے وقت ہو جائے گا یا قیامت کے قائم ہونے پر انہیں علم ہو جائے گا۔ رسولوں نے سچ فرمایا تھا:

اِذَا وَقَعَتِ الۡوَاقِعَۃُ ﴿﴾ لَیۡسَ لِوَقۡعَتِہَا کَاذِبَۃٌ ﴿﴾ (۵۶ واقعہ: ۱۔۲)

جب ہونے والا واقعہ ہو چکے گا، تو اس کے وقوع کو کہ جھٹلانے والا کوئی نہ ہو گا۔

۳۔ ثُمَّ کَلَّا: دوبارہ تاکید ہے کہ ایسا ہرگز نہ ہوگا کہ قیامت نہ ہو۔

۴۔ سَیَعۡلَمُوۡنَ: عنقریب انہیں علم ہو جائے گا کہ قیامت برحق ہے۔ یہ جملہ بھی بظاہر تاکید کے لیے تکرار فرمایا گیا ہے کہ قیامت برحق ہونے کا علم تمہیں عند الموت ہو جائے گا۔ ایک احتمال یہ بھی دیا گیا ہے کہ ممکن ہے اس سَیَعۡلَمُوۡنَ کا تعلق موت سے پہلے دنیا میں علمی اور سائنسی پیشرفت کے ذریعے ہونے والے علم سے ہو۔

آیت کا اشارہ اس بات کی طرف ہو یا نہ ہو یہ بات اپنی جگہ قابل توجہ ہے کہ انسان کو علم ہونا شروع ہوگیا ہے کہ حیات مشکل اور سخت ترین حالات میں بھی موجود رہتی ہے۔ آج انسان کو حیات ایسے وائرس میں بھی موجود مل رہی ہے جو الیکٹرونک مائیکروسکوپ، جو چیزوں کو سات بلین گنا بڑا کر کے دکھا سکتی ہے، کے ذریعے بھی قابل دید نہیں ہے۔ ہم نے اس سلسلے کے ایک اہم انکشاف کا ذکر سورۃ ق آیت چار میں وَ عِنۡدَنَا کِتٰبٌ حَفِیۡظٌ کے ذیل میں نقل کیا ہے۔


آیات 4 - 5