وَ لَقَدۡ جَآءَ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ النُّذُرُ ﴿ۚ۴۱﴾

۴۱۔ اور بتحقیق قوم فرعون کے پاس بھی تنبیہ کرنے والے آئے۔

کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا کُلِّہَا فَاَخَذۡنٰہُمۡ اَخۡذَ عَزِیۡزٍ مُّقۡتَدِرٍ﴿۴۲﴾

۴۲۔انہوں نے ہماری تمام نشانیوں کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں اس طرح گرفت میں لیا جس طرح ایک غالب آنے والا طاقتور گرفت میں لیتا ہے ۔

اَکُفَّارُکُمۡ خَیۡرٌ مِّنۡ اُولٰٓئِکُمۡ اَمۡ لَکُمۡ بَرَآءَۃٌ فِی الزُّبُرِ ﴿ۚ۴۳﴾

۴۳۔ کیا تمہارے (زمانے کے) کفار ان لوگوں سے بہتر ہیں یا (الہامی) کتب میں تمہارے لیے معافی کا پروانہ لکھا ہوا ہے؟

43۔ کفار قریش سے خطاب ہے کہ جرم تمہارا بھی وہی ہے، پس تم کو بھی اس قسم کی سزا ملے گی۔ کیونکہ نہ تم آل فرعون سے بہتر کردار کے حامل ہو اور نہ ہی اللہ کی طرف سے نازل شدہ آسمانی کتابوں میں سے کسی کتاب میں تمہیں امان حاصل ہونے کا کوئی پروانہ موجود ہے اور کیا تم دعویٰ کر سکتے ہو کہ ہم ایک فاتح جماعت ہیں؟ اس کا بھی عنقریب علم ہو جائے گا کہ تم فاتح جماعت نہیں ہو، بلکہ شکست خوردہ جماعت ہو۔ یہ پیشگوئی مکی زندگی کے اس زمانے کی بات ہے جب مسلمان نہایت کم تعداد میں ہر قسم کا ظلم سہ رہے تھے۔ بظاہر ان مظالم سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ نَحۡنُ جَمِیۡعٌ مُّنۡتَصِرٌ﴿۴۴﴾

۴۴۔ یا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایک فاتح جماعت ہیں؟

سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ (نہیں) یہ جماعت عنقریب شکست کھائے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گی۔

45۔ یہ اس سزا کی نوعیت کی پیشگوئی ہے کہ یہ سزا ایک ہزیمت کی شکل میں دی جائے گی۔ چنانچہ جنگ بدر میں قریش نے ذلت آمیز شکست کھائی تو حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔

بَلِ السَّاعَۃُ مَوۡعِدُہُمۡ وَ السَّاعَۃُ اَدۡہٰی وَ اَمَرُّ﴿۴۶﴾

۴۶۔ ان کے وعدے کا وقت قیامت ہے اور قیامت تو زیادہ ہولناک اور زیادہ تلخ ہے۔

اِنَّ الۡمُجۡرِمِیۡنَ فِیۡ ضَلٰلٍ وَّ سُعُرٍ ﴿ۘ۴۷﴾

۴۷۔ مجرم لوگ یقینا گمراہی اور عذاب میں ہیں۔

یَوۡمَ یُسۡحَبُوۡنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوۡہِہِمۡ ؕ ذُوۡقُوۡا مَسَّ سَقَرَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ جس دن وہ منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے (ان سے کہا جائے گا) چکھو آگ کا ذائقہ۔

اِنَّا کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقۡنٰہُ بِقَدَرٍ﴿۴۹﴾

۴۹۔ ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے۔

49۔ قدر اور تقدیرسے مراد ہے قانون اور نظام۔ ہر شے کی تخلیق اسی قانون اور نظام کے تحت ہے، اندھا دھند نہیں ہے۔ ہر شے کو اس نظام اور تقدیر کے دائرے میں وجود میں آنا، نشو و نما پانا اور پھلنا پھولنا ہے۔ اس تقدیر اور اس نظام میں علل و اسباب کو بڑا دخل ہے۔ بغیر علت و سبب کے نہ تو کوئی چیز از خود وجود میں آتی ہے اور نہ اس میں تبدیلی آسکتی ہے۔ انسان کو بھی اللہ کی اس وضع کردہ تقدیر یعنی نظام کے تحت چل کر اس میں اپنی تقدیر خود اپنے ہاتھوں سے رقم کرنا ہے۔ لہٰذا تقدیر کا مطلب جبر نہیں، بلکہ نظم ہے اور اس نظم میں انسان کو اپنی قسمت خود بنانی ہے۔ یعنی خود مختاری اور اپنی مرضی کے ساتھ۔

وَ مَاۤ اَمۡرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمۡحٍۭ بِالۡبَصَرِ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور ہمارا حکم بس ایک ہی ہوتا ہے پلک جھپکنے کی طرح۔

50۔ یعنی وَ مَاۤ اَمۡرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَۃٌ اور وہ کلمہ کُنۡ ہے۔ یعنی الا کلمۃ واحدۃ ۔ یعنی ایک ارادہ کافی ہے۔ یہاں امر سے مراد امر تکوینی ہے، جس کے لیے صرف ایک ارادہ الٰہی کافی ہے۔ نہ اس پر وقت لگتا ہے، نہ وسائل و اسباب۔