اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ صَیۡحَۃً وَّاحِدَۃً فَکَانُوۡا کَہَشِیۡمِ الۡمُحۡتَظِرِ﴿۳۱﴾

۳۱۔ ہم نے ان پر ایک زور دار چنگھاڑ چھوڑ دی تو وہ سب باڑ والے کے بھوسے کی طرح ہو گئے۔

31۔ ہَشِیۡمِ : خشک گھاس یا درخت کے خشک تنے جو ٹوٹ کر ریزہ ہو جاتے ہیں۔

الۡمُحۡتَظِرِ حظیرۃ کا مالک۔ حظیرۃ اس باڑ کو کہتے ہیں جس میں جانوروں کو سردیوں میں محفوظ رکھا جاتا ہے اور خشک گھاس کھلائی جاتی ہے۔

وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور بتحقیق ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے؟

کَذَّبَتۡ قَوۡمُ لُوۡطٍۭ بِالنُّذُرِ﴿۳۳﴾

۳۳۔ لوط کی قوم نے بھی تنبیہ کرنے والوں کو جھٹلایا،

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ حَاصِبًا اِلَّاۤ اٰلَ لُوۡطٍ ؕ نَجَّیۡنٰہُمۡ بِسَحَرٍ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ تو ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا چلا دی سوائے آل لوط کے جنہیں ہم نے سحر کے وقت بچا لیا،

نِّعۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ مَنۡ شَکَرَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اپنی طرف سے فضل کے طور پر، شکر گزاروں کو ہم ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔

35۔ کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ مَنۡ شَکَرَ : شکر گزاری اور قدردانی ایک ایسا قابل ستائش اخلاق ہے جسے اللہ بہت پسند فرماتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ کو بھی اس صفت سے متصف کیا جاتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ (شوری:23) وہ معاف کرنے والا قدردان ہے۔ یہ ایک بہت بلند مرتبہ اخلاق ہے۔ اس لیے اس مرتبے پر بہت کم لوگ فائز ہوتے ہیں: وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ ۔ (سبا:13) میرے بندوں میں کم لوگ شکر گزار ہیں۔

وَ لَقَدۡ اَنۡذَرَہُمۡ بَطۡشَتَنَا فَتَمَارَوۡا بِالنُّذُرِ﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور بتحقیق لوط نے ہماری عقوبت سے انہیں ڈرایا مگر وہ ان تنبیہ کرنے والوں سے جھگڑتے رہے ۔

36۔ لوط علیہ السلام نے پہلے ہی قوم کو آنے والی عقوبت سے آگاہ کیا تھا، لیکن وہ اس سے الجھتے رہے۔ یہاں ہم نے النذر کے قرینہ کی وجہ سے النذیر کی جمع کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔

وَ لَقَدۡ رَاوَدُوۡہُ عَنۡ ضَیۡفِہٖ فَطَمَسۡنَاۤ اَعۡیُنَہُمۡ فَذُوۡقُوۡا عَذَابِیۡ وَ نُذُرِ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اور بتحقیق انہوں نے لوط کے مہمانوں کو قابو کرنا چاہا تو ہم نے ان کی آنکھیں مٹا دیں، لو اب میرے عذاب اور تنبیہوں کو چکھو۔

37۔ فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس نہایت حسین لڑکوں کی شکل میں آئے۔ قوم لوط نے ان کے گھر پر ہلہ بول دیا اور مہمانوں کو بدکاری کے لیے ان کے حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ حضرت لوط علیہ السلام کے انکار پر وہ گھر میں گھسنے کی کوشش کرنے لگے تو اللہ نے ان کی بینائی سلب کر لی اور وہ اندھے ہو گئے۔

وَ لَقَدۡ صَبَّحَہُمۡ بُکۡرَۃً عَذَابٌ مُّسۡتَقِرٌّ ﴿ۚ۳۸﴾

۳۸۔ اور بتحقیق صبح سویرے ایک دائمی عذاب ان پر نازل ہوا۔

فَذُوۡقُوۡا عَذَابِیۡ وَ نُذُرِ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اب چکھو میرے عذاب اور تنبیہوں کا ذائقہ۔

وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ﴿٪۴۰﴾

۴۰۔ اور بتحقیق ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے، تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟