آیات 41 - 42
 

وَ لَقَدۡ جَآءَ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ النُّذُرُ ﴿ۚ۴۱﴾

۴۱۔ اور بتحقیق قوم فرعون کے پاس بھی تنبیہ کرنے والے آئے۔

کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا کُلِّہَا فَاَخَذۡنٰہُمۡ اَخۡذَ عَزِیۡزٍ مُّقۡتَدِرٍ﴿۴۲﴾

۴۲۔انہوں نے ہماری تمام نشانیوں کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں اس طرح گرفت میں لیا جس طرح ایک غالب آنے والا طاقتور گرفت میں لیتا ہے ۔

تفسیر آیات

۱۔ باقی انبیاء علیہم السلام کی قوم کا ذکر ہوتا ہے لیکن فرعون کا جب ذکر ہوتا تو اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ (۷ اعراف: ۱۰۳) فرعون اور اس کے درباری یا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ فرمایا۔ یہ اس لیے کہ فرعون کی قوم دیگر قوموں کی طرح آزاد نہیں تھی بلکہ اس قوم پر فرعون کی گرفت بہت مضبوط تھی اور اس قوم کی اپنی جدا حیثیت نہ تھی۔ دیگر قوموں میں چند ایک لوگ انبیاء علیہم السلام پر ایمان لے آتے تھے لیکن قوم فرعون میں ایسا ممکن نہ تھا۔ کوئی ایمان لے آتا تو اسے ایمان چھپانا پڑتا تھا: یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ۔۔۔۔ (۴۰ غافر: ۲۸) یا اگر علی الاعلان ایمان لے آتا ہے تو اسے سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ جیسے جادوگروں کے ایمان کے بعد ہوا۔ یہاں آل سے مراد فرعون کے قریبی لوگ ہیں جو رشتے میں ہوں یا نظریے میں۔

۲۔ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا کُلِّہَا: آل فرعون نے ہماری تمام آیات کی تکذیب کی۔ کُلِّہَا سے اشارہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات دوسرے انبیاء علیہم السلام کی نسبت زیادہ تھے اور قرآن نے ان میں سے نو معجزوں کا ذکر کیا ہے۔

۳۔ فَاَخَذۡنٰہُمۡ: اللہ نے آل فرعون کو ایسے عذاب میں لیا جیسے ایک غالب آنے والی طاقت اور طاقتور گرفت میں لیتا ہے۔ جہاں بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔


آیات 41 - 42