آیات 44 - 45
 

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ نَحۡنُ جَمِیۡعٌ مُّنۡتَصِرٌ﴿۴۴﴾

۴۴۔ یا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایک فاتح جماعت ہیں؟

سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ (نہیں) یہ جماعت عنقریب شکست کھائے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گی۔

تفسیر آیات

۱۔ کیا تم دعویٰ کر سکتے ہو کہ ایک فاتح، ناقابل شکست جماعت ہو۔ گزشتہ اقوام سے تم کوئی مختلف اور طاقتور قوم ہو۔ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے بلکہ گزشتہ اقوام کے مقابلے میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جیسا کہ مروی ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا:

تشربون الطرق و تقتاتون القد اذلۃ خاسئین۔۔۔۔ (الاحتجاج ۱: ۱۰۰)

تم کیچڑ والے بدبودار پانی سے پیاس بجھاتے اور گھاس پھوس سے بھوک مٹاتے تھے۔

۲۔ سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ: تم فاتح نہیں، شکست خوردہ جماعت ہو۔ نہایت قابل توجہ یہ ہے کہ یہ پیشینگوئی مکی زندگی کے اس زمانے کی بات ہے جب مسلمان نہایت کم تعداد میں ہر قسم کا ظلم سہ رہے تھے۔ بظاہر ان مظالم سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

۳۔ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ: مکہ میں مٹھی بھر بے بس جماعت کی طرف سے یہ اعلان کہ تم پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے ہو، بظاہر مضحکہ لگتا تھا۔ چنانچہ جنگ بدر میں قریش نے ذلت آمیز شکست کھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔


آیات 44 - 45