ثُمَّ یُجۡزٰىہُ الۡجَزَآءَ الۡاَوۡفٰی ﴿ۙ۴۱﴾

۴۱۔ پھر اسے پورا بدلہ دیا جائے گا،

وَ اَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الۡمُنۡتَہٰی ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔ اور یہ کہ (منتہائے مقصود) آپ کے رب کے پاس پہنچنا ہے۔

وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَضۡحَکَ وَ اَبۡکٰی ﴿ۙ۴۳﴾

۴۳۔ اور یہ کہ وہ ہنساتا اور وہی رلاتا ہے۔

وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَمَاتَ وَ اَحۡیَا ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔ اور یہ کہ وہی مارتا اور وہی جلاتا ہے۔

وَ اَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوۡجَیۡنِ الذَّکَرَ وَ الۡاُنۡثٰی ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ اور یہ کہ وہی نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کرتا ہے،

مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اِذَا تُمۡنٰی ﴿۪۴۶﴾

۴۶۔ ایک نطفے سے جب وہ ٹپکایا جاتا ہے۔

وَ اَنَّ عَلَیۡہِ النَّشۡاَۃَ الۡاُخۡرٰی ﴿ۙ۴۷﴾

۴۷۔ اور یہ کہ دوسری زندگی کا پیدا کرنا اس کے ذمے ہے۔

47۔ عَلَیۡہِ : اپنے وعدے پر عمل کرنا ضروری ہے اور حکمت خلق و ایجاد کے اعتبار سے بھی ضروری ہے اور انسان کو مکلف بنانے کے اعتبار سے بھی روز حساب کا ہونا لازمی ہے، ورنہ وعدہ خلافی سے خلق و ایجاد عبث ہوتی اور مکلف بنانے پر ظلم لازم آتا۔ یہ خود ارادﮤ الٰہی کے تحت اللہ پر لازم اور واجب ہے، کسی برتر قانون کے ماتحت پابند ہونے کی وجہ سے نہیں۔ جیسے کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۔ (انعام: 54) تمہارے پروردگار نے رحمت کو اپنے اوپر لازم کیا ہے۔ اس آیت میں لفظ کَتَبَ اور عَلٰی دونوں وجوب لازم پر دلالت کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا: حق تعالیٰ پر کوئی سی بھی چیز واجب نہیں ہے(دریابادی)، صریح قرآن اور خود ارادہ الٰہی کے خلاف ہے اور ساتھ خود محشی و دیگر مفسرین کی تصریحات کے بھی خلاف ہے، جو انہوں نے آیہ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ کے ذیل میں کی ہیں۔

وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَغۡنٰی وَ اَقۡنٰی ﴿ۙ۴۸﴾

۴۸۔ اور یہ کہ وہی دولت مند بناتا ہے اور ثابت سرمایہ دیتا ہے۔

وَ اَنَّہٗ ہُوَ رَبُّ الشِّعۡرٰی ﴿ۙ۴۹﴾

۴۹۔ اور یہ کہ وہی (ستارہ) شعرا کا رب ہے۔

49۔ شعریٰ نامی ستارہ سورج کے بعد سب سے زیادہ چمکدار ستارہ ہے۔ یہ ستارہ سورج سے بیس گنا زیادہ روشن اور زمین سے دس نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اہل مصر اور عربوں میں سے قبیلہ خزاعہ اس ستارے کی پرستش کرتے تھے۔ اس آیت میں فرمایا کہ تمہارا رب شعریٰ نہیں بلکہ تمہارا رب اللہ ہے جو شعریٰ کا بھی رب ہے۔

وَ اَنَّہٗۤ اَہۡلَکَ عَادَۨ ا الۡاُوۡلٰی ﴿ۙ۵۰﴾

۵۰۔ اور یہ کہ اسی نے عاد اولیٰ کو ہلاک کیا۔