آیات 42 - 46
 

وَ اَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الۡمُنۡتَہٰی ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔ اور یہ کہ (منتہائے مقصود) آپ کے رب کے پاس پہنچنا ہے۔

وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَضۡحَکَ وَ اَبۡکٰی ﴿ۙ۴۳﴾

۴۳۔ اور یہ کہ وہ ہنساتا اور وہی رلاتا ہے۔

وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَمَاتَ وَ اَحۡیَا ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔ اور یہ کہ وہی مارتا اور وہی جلاتا ہے۔

وَ اَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوۡجَیۡنِ الذَّکَرَ وَ الۡاُنۡثٰی ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ اور یہ کہ وہی نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کرتا ہے،

مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اِذَا تُمۡنٰی ﴿۪۴۶﴾

۴۶۔ ایک نطفے سے جب وہ ٹپکایا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الۡمُنۡتَہٰی: موسیٰ و ابراہیم علیہما السلام کے صحیفوں کے مندرجات کا ذکر جاری ہے۔ اللہ کی ذات تک ہے۔ تمام کائنات کا وجود اور اس کی بقا اور بقا سے متعلق تدبیر، سب کا انتہائے مقصود اللہ کی ذات ہے۔ اسی طرح تمام انسانی اعمال کا آخری نتیجہ اللہ کے پاس قبول و رد کے لیے پہنچنا ہے۔

۲۔ وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَضۡحَکَ وَ اَبۡکٰی: تمام امور کی بازگشت اللہ کی طرف ہونے کی ایک صورت کا ذکر ہے کہ خوشی اور غمی کے عوامل کا سلسلہ بالآخر اللہ کی ذات پر منتہی ہوتا ہے۔

المیزان میں اس آیت کی بہتر وضاحت آئی ہے۔ فرماتے ہیں:

انسان کے ہنسنے پر اللہ کے ارادے سے انسان کے ارادے کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ اللہ کا ارادہ مطلق ہنسنے پر نہیں ہوتا بلکہ انسان کے اپنے ارادے اور اختیار سے ہنسنے پر ہوتا ہے۔ ہنسنے پر انسان کا ارادہ اللہ کے ارادے کے ذیل میں ہوتا ہے، نہ یہ کہ اللہ کے ارادے کے ساتھ متصادم ہوتا ہے تاکہ جبر لازم آئے، نہ یہ کہ ہنسنے کا عمل انسان کی سو فیصد اپنی تخلیق ہے کہ تفویض لازم آئے۔

۳۔ وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَمَاتَ وَ اَحۡیَا: اَمَاتَ یعنی موت کو پیدا کیا۔ وَ اَحۡیَا زندگی کو بھی خلق فرمایا۔ الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ ۔۔۔۔ ( ۶۷ ملک: ۲) وہی ذات ہے جس نے موت اور حیات کو خلق فرمایا۔ اسی کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے لہٰذا وہی لائق عبادت ہے۔

۴۔ وَ اَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوۡجَیۡنِ: وہی ذات لائق عبادت ہے جس نے اس کرہ ارض پر حیات برقرار رکھنے کے لیے مرد و زن کا جفت پیدا کیا۔

۵۔ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ: ایک حقیر نطفے کے ذریعے زمین کو انسانوں سے آباد کیا لہٰذا لائق عبادت وہی ذات ہے جس کے قبضہ قدرت میں کل کائنات اور دیگر تمام موجودات کی تدبیر ہے۔


آیات 42 - 46