آیات 38 - 41
 

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۹﴾

۳۹۔ اور یہ کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔

وَ اَنَّ سَعۡیَہٗ سَوۡفَ یُرٰی ﴿۪۴۰﴾

۴۰۔ اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔

ثُمَّ یُجۡزٰىہُ الۡجَزَآءَ الۡاَوۡفٰی ﴿ۙ۴۱﴾

۴۱۔ پھر اسے پورا بدلہ دیا جائے گا،

تفسیر آیات

۱۔ وہ اصول و قوانین جو انبیاء علیہم السلام کے صحیفوں میں درج ہیں اور جو تمام اسلامی شریعتوں میں ہر زمانے کے لیے لازم العمل ہیں یہ ہیں:

الف: انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دارہے۔ وہ اسے نہ کسی اور کے ذمے ڈال سکتا ہے، نہ ہی دوسرے کے جرم کی ذمہ داری اپنے اوپر لے سکتا ہے۔

ب: انسان کو اس کے اپنے عمل کا صلہ ملے گا۔ دوسروں کے عمل کا صلہ اسے نہیں ملے گا۔

ج: انسان کا کوئی عمل ضائع نہیں جائے ۔ قیامت کے دن وہ اپنے عمل کا خود معائنہ کر سکے گا۔

آیت ۳۸ کے تحت دوسرے کے عمل کا وبال اپنے سر نہیں لے سکتا کہ گناہ کوئی کر ے اور اس کی سزا دوسرا تحمل کرے مگر یہ کہ دوسرے کے جرم میں اس کا کوئی عمل دخل ہو۔ جیسے حدیث ہے:

اَیُّمَا عَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللہِ سَنَّ سُنَّۃَ ضَلَالٍ کَانَ عَلَیہِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ فَعَلَ ذَلِکَ مِنْ غَیْرِ اَنْ یُنْقَصَ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیْئٌ۔ (وسائل الشیعۃ۱۶: ۱۷۳)

اللہ کے بندوں میں سے کوئی بندہ کسی گمراہی کی رسم کو رواج دے تو اس پر عمل کرنے والے پر آنے والے وبال (گناہ) کے برابر اس پر بھی وبال آئے گا، بغیر اس کے کہ اس کا ارتکاب کرنے والے کے وبال میں کوئی کمی ہو۔

آیت ۳۹ کے تحت انسان کو اپنے عمل کا صلہ ملے گا۔ نہ اس کے عمل کا صلہ کسی دوسرے کو ملے گا، نہ ہی کسی دوسرے کے عمل کا صلہ اسے ملے گا۔

کچھ لوگوں نے اس آیت کو دنیاوی معاملات پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں انسان اپنی محنت کی کمائی کے سوا کسی چیز کا مالک نہیں بن سکتا۔ یہ ایک غلط نتیجہ اخذ کرنا ہے۔ قرآنی تعلیمات میں ارث کا حکم ایک مسلمہ اصول ہے کہ ایک شیر خوار بچہ وارث بننے کی صورت میں مالک بن جاتا ہے۔ اس کی کوئی محنت نہیں ہے۔ ہبہ، صدقات، زکوۃ و خمس کے شرعی میزان سے بھی استحقاق کی بنیاد پر محنت کے بغیر مالک بن جاتے ہیں:

الناس مسلطون علی اموالہم۔ (عوالی اللآلی ۱: ۲۲۲)

لوگ اپنے اموال پر اختیار رکھتے ہیں۔

اس آیت کا تعلق ثواب و عقاب آخرت سے ہے کہ ایک شخص کا عمل دوسرے شخص کے کام نہیں آئے گا۔ اس صورت میں یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ اگر ایک شخص کا عمل دوسرے کو فائدہ نہیں دے سکتا تو پھر ایصال ثواب کے اعمال، شفاعت، دعائے استغفار، حج بدل، تلاوت قرآن کا ثواب ہدیہ کرنا، میت کی نماز، روزے کی قضا وغیرہ کا کیا حکم ہے؟

جواب یہ ہے کہ شفاعت، دوسرے کی دعا سے فائدہ ملنا وغیرہ، چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ بلا عمل وہ دیگر لوگوں کے عمل سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ بدعمل کی شفاعت نہیں ہوتی۔ اس کے حق میں دعا قبول نہیں ہوتی۔ تلاوت قرآن کا ثواب اسے نہیں ملتا جو قرآن کو پس پشت ڈالتا رہا ہو۔ ان مذکورہ تمام امور میں دوسرے شخص کے عمل سے فائدہ ملنے کے لیے بھی عمل شرط ہے۔ البتہ اللہ کا یہ فضل و احسان ہے اس کے تھوڑے عمل کی وجہ سے اللہ دوسروں کی دعا، شفاعت، ایصال ثواب اور نیابت میں انجام دینے والے اعمال کا ثواب اس مومن کی خواہش پوری کرتے ہوئے مرحمت فرماتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

لِیَجۡزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ۔۔۔۔ (۲۴ نور: ۳۸)

تاکہ اللہ انہیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دے اور اپنے فضل سے انہیں مزید بھی عطا کرے۔

لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوا الۡحُسۡنٰی وَ زِیَادَۃٌ۔۔۔۔ (۱۰ یونس: ۲۶ )

جنہوں نے نیکی کی ہے ان کے لیے نیکی ہے اور مزید بھی۔

وَ زِیَادَۃٌ سے مراد اصل ثواب اور اس کے دس گنا سے بھی زیادہ ہے۔ الۡحُسۡنٰی دس گنا ہے۔ وَ زِیَادَۃٌ میں کوئی حد بندی نہیں۔ لہٰذا یہ انسان کی اپنی سعی اور عمل کا نتیجہ ہے کہ دوسرے مومنین کی اس کے بارے میں خواہش کو اللہ قبول فرماتا ہے اور اس کے بارے میں دوسرے مومنین کا ہدیہ قبول کرنا يَزِيْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ سے ہے۔

درحقیقت ایصال ثواب وغیرہ میں دو اشخاص کے عمل کو دخل ہے۔ ایصال کرنے والا عمل کے اعتبار سے اس قابل ہو کہ اللہ اس کی خواہش پوری کرے اور جسے ایصال کرنا ہے وہ بھی عمل کے اعتبار سے اس قابل ہو کہ ایصال ثواب اسے مل سکے۔ اگر یہ دونوں عمل کے لحاظ سے قابل اعتنا نہ ہوں تو مذکورہ تمام اعمال کا اسے فائدہ نہیں ملے گا۔

ایصال ثواب میں فقہ جعفری کے مطابق بدنی اورمالی عبادات میں فرق نہیں ہے۔ ہر نیک عمل کا ثواب دوسرے کو ہدیہ کر سکتا ہے۔

فقہ مالکی و شافعی میں خالص بدنی عبادت جیسے نماز، روزہ، تلاوت کا ثواب دوسرے کو نہیں پہنچ سکتا۔ صرف مالی عبادات جیسے صدقہ اور مالی و بدنی مرکب جیسے حج کا ثواب دوسرے کو پہنچ سکتا ہے۔ حنفی کا موقف اس مسئلے میں فقہ جعفری کی طرح ہے۔

۲۔ وَ اَنَّ سَعۡیَہٗ سَوۡفَ یُرٰی: قیامت کے دن اس نے دنیا میں جو سعی اور محنت کی ہے اس کا ثواب اور اجر تو ملے گا ہی، ساتھ خود اپنے عمل کا مشاہدہ بھی کرے گا۔ چنانچہ یہ آیت اور دیگر متعدد آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود عمل دیکھا جائے گا۔

۳۔ ثُمَّ یُجۡزٰىہُ: عمل کے مشاہدے کے بعد جزائے عمل کی نوبت آئے گی۔ اس سے یہ بات اور واضح ہو گئی کہ سَوۡفَ یُرٰی سے ’’جزائے عمل دیکھے گا‘‘ مراد نہیں ہو سکتا چونکہ جزائے عمل کا ثُمَّ کے بعد جدا ذکر ہوا ہے۔

۴۔ الۡجَزَآءَ الۡاَوۡفٰی: اگر ایک نیکی کا ایک ثواب دیا جائے تو یہ وفا ہے لیکن اللہ ایک نیکی کا دس گنا ثواب مرحمت فرماتا ہے تو یہ اوفی زیادہ وفا ہے۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا:کوئی اپنے والد یا کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار کی قبر پر کھڑا ہو جائے تو اس سے اس قبر والے کو فائدہ ملے گا؟ فرمایا:

نَعَمْ اِنَّ ذَلِکَ یَدْخُلُ عَلَیْہِ کَمَا یَدْخُلُ عَلَی اَحَدِکُمُ الھَدِیَّۃُ یَفْرَحُ بِھَا۔ (مستدرک الوسائل ۔۲: ۳۶۳)

ہاں! اسے فائدہ ملے گا جیسے تم میں سے کسی کو ہدیہ ملتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔


آیات 38 - 41