وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۙ لِیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اَسَآءُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا وَ یَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا بِالۡحُسۡنٰی ﴿ۚ۳۱﴾

۳۱۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور نیکی کرنے والوں کو بہترین جزا دے۔

اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الۡمَغۡفِرَۃِ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ٪﴿۳۲﴾

۳۲۔ جو لوگ گناہان کبیرہ اور بے حیائیوں سے اجتناب برتتے ہیں سوائے گناہان صغیرہ کے تو آپ کے رب کی مغفرت کا دائرہ یقینا بہت وسیع ہے، وہ تم سے خوب آگاہ ہے جب اس نے تمہیں مٹی سے بنایا اور جب تم اپنی ماؤں کے شکم میں ابھی جنین تھے، پس اپنے نفس کی پاکیزگی نہ جتاؤ، اللہ پرہیزگار کو خوب جانتا ہے۔

32۔ اللَّمَمَ گناہ کے قریب جانے کے معنوں میں ہے۔ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے: لَّمَمَ وہ گناہ ہے جس کے ارتکاب کے بعد انسان استغفار کرتا ہے۔ آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ان چھوٹے گناہوں کے علاوہ اگر انسان بڑے گناہوں سے اجتناب کرتا ہے تو اللہ کی مغفرت کا دائرہ وسیع ہے اور وہ بخش دے گا۔ آیت کے آخر میں فرمایا: اپنی پاکیزگی کے دعوے نہ کرو۔ اگر یہ دعویٰ اللہ کی خاطر ہے تو وہ بہتر جانتا ہے کہ تمہارے دعوے کہاں تک صحیح ہیں۔ اگر اس کا مقصد لوگوں کے سامنے اپنی پاکیزگی کا اظہار کرنا ہے تو یہ خود ستائیشی اور خود بینی بندگی کے سراسر خلاف ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے: سَیِّئَۃٌ تَسُوئُکَ خَیْرٌ عِنْدَ اللہِ مِنْ حَسَنَۃٍ تُعْجِبُکَ ۔ (نہج البلاغۃ نصیحت 46 ص 477) وہ گناہ جو خود تجھے برا لگے، اللہ کے نزدیک اس نیکی سے بہتر ہے جو تجھے خود پسندی میں مبتلا کر دے۔

اَفَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ مجھے بتلاؤ جس نے منہ پھیر لیا،

وَ اَعۡطٰی قَلِیۡلًا وَّ اَکۡدٰی﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور تھوڑا سا دیا اور پھر رک گیا؟

34۔ ایک روایت کے مطابق ولید بن مغیرہ کو مشرکین نے اور دوسری روایت کے مطابق حضرت عثمان کو ان کے رشتہ دار عبد اللہ بن سعد نے یہ پیش کش کی کہ اپنے مال کا کچھ حصہ ہمیں دے دیں، ہم آپ کا بار گناہ یا شرک کا عذاب اپنی گردن پر لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں معاہدہ ہوا، لیکن کچھ مال دینے کے بعد وہ رک گیا۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔

اَعِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡغَیۡبِ فَہُوَ یَرٰی﴿۳۵﴾

۳۵۔ کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے وہ دیکھ رہا ہے؟

35۔ کیا اس کو علم غیب کے ذریعے پتہ چلا کہ آخرت کا عذاب مال دے کر کسی اور کے ذمے ڈالا جا سکتا ہے؟

اَمۡ لَمۡ یُنَبَّاۡ بِمَا فِیۡ صُحُفِ مُوۡسٰی ﴿ۙ۳۶﴾

۳۶۔ کیا اسے ان باتوں کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰ کے صحیفوں میں تھیں؟

وَ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی ﴿ۙ۳۷﴾

۳۷۔ اور ابراہیم کے (صحیفوں میں) جس نے (حق اطاعت) پورا کیا؟

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

38۔ ہر شخص اپنے عمل و کردار کا خود ذمے دار ہے۔ وہ اسے نہ کسی اور کے ذمے ڈال سکتا ہے، نہ ہی دوسرے شخص کے جرم کی ذمہ داری اپنے اوپر لے سکتا ہے۔

وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۹﴾

۳۹۔ اور یہ کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔

39۔ ہر شخص نے اپنے عمل کا پھل لینا ہے۔ دوسروں کے عمل سے وہ یہ پھل حاصل نہیں کر سکتا، مگر یہ کہ اس عمل میں اس کا بھی حصہ ہو۔ ایصال ثواب کا مطلب یہ ہے کہ جو عمل ایصال ثواب کے لیے کیا جاتا ہے، عمل کرنے والے کو اس کا ثواب مل جاتا ہے اور چونکہ اس نے اس عمل کا ثواب کسی مرحوم کے لیے ہدیہ کیا ہے، لہٰذا اللہ اس کی یہ خواہش پوری کرتے ہوئے اس مرحوم کے لیے بھی ثواب دے گا۔ یہ اللہ کی طرف سے خاص لطف اور فضل ہے۔ چنانچہ اسی خاص لطف و کرم کی بنا پر ایصال ثواب ہو سکتا ہے لیکن ایصال عذاب نہیں ہو سکتا۔

وَ اَنَّ سَعۡیَہٗ سَوۡفَ یُرٰی ﴿۪۴۰﴾

۴۰۔ اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔

40۔ یعنی بروز قیامت اس کو اپنا عمل نظر آئے گا۔