اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَہُ الۡاُنۡثٰی ﴿۲۱﴾

۲۱۔ کیا تمہارے لیے تو بیٹے اور اللہ کے لیے بیٹیاں ہیں؟

تِلۡکَ اِذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزٰی ﴿۲۲﴾

۲۲۔ یہ تو پھر غیر منصفانہ تقسیم ہے۔

اِنۡ ہِیَ اِلَّاۤ اَسۡمَآءٌ سَمَّیۡتُمُوۡہَاۤ اَنۡتُمۡ وَ اٰبَآؤُکُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنۡ سُلۡطٰنٍ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَہۡوَی الۡاَنۡفُسُ ۚ وَ لَقَدۡ جَآءَہُمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمُ الۡہُدٰی ﴿ؕ۲۳﴾

۲۳۔ دراصل یہ تو صرف چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آبا و اجداد نے گھڑ لیے ہیں، اللہ نے تو اس کی کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے، یہ لوگ صرف گمان اور خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آ چکی ہے۔

اَمۡ لِلۡاِنۡسَانِ مَا تَمَنّٰی ﴿۫ۖ۲۴﴾

۲۴۔ انسان جو آرزو کرتا ہے کیا وہ اسے مل جاتی ہے؟

فَلِلّٰہِ الۡاٰخِرَۃُ وَ الۡاُوۡلٰی﴿٪۲۵﴾

۲۵۔ اور دنیا اور آخرت کا مالک تو صرف اللہ ہے۔

وَ کَمۡ مِّنۡ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغۡنِیۡ شَفَاعَتُہُمۡ شَیۡئًا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ یَّاۡذَنَ اللّٰہُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَرۡضٰی﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور آسمانوں میں کتنے ہی ایسے فرشتے ہیں جن کی شفاعت کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی مگر اللہ کی اجازت کے بعد جس کے لیے وہ چاہے اور پسند کرے۔

26۔ فرشتے اللہ کی بارگاہ میں کتنے ہی مقرب کیوں نہ ہوں، کسی کی شفاعت نہیں کر سکتے، جب تک اللہ کی طرف سے اجازت نہ ہو اور اجازت کے لیے بھی یَرۡضٰی پسند یعنی اہلیت شرط ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ لَیُسَمُّوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ تَسۡمِیَۃَ الۡاُنۡثٰی﴿۲۷﴾

۲۷۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کے نام لڑکیوں جیسے رکھتے ہیں۔

وَ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ ۚ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا ﴿ۚ۲۸﴾

۲۸۔ حالانکہ انہیں اس کا کچھ بھی علم نہیں ہے وہ تو صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور گمان تو حق (تک) پہنچنے کے لیے کچھ کام نہیں دیتا۔

28۔ ظن،حق کی جگہ کام نہیں دے سکتا۔ کسی مؤقف کے لیے ظن کو بطور سند پیش نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہ کیسے اسی ظن کی بنیاد پر فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بنا کر ان سے مرادیں مانگتے ہیں؟

فَاَعۡرِضۡ عَنۡ مَّنۡ تَوَلّٰی ۬ۙ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ لَمۡ یُرِدۡ اِلَّا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿ؕ۲۹﴾

۲۹۔ پس آپ اس سے منہ پھیر لیں جو ہمارے ذکر سے منہ پھیرتا ہے اور صرف دنیاوی زندگی کا خواہاں ہے۔

29۔ حق سے نفرت کرنے والے دنیا پرستوں سے دور ہٹ کر اپنی ساری توجہ اس جماعت کے لوگوں کی طرف رکھنی چاہیے جو حق کی بات سننے کے لیے آمادہ ہیں، کیونکہ یہی لوگ اس دعوت کو آگے بڑھائیں گے۔

ذٰلِکَ مَبۡلَغُہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ۙ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اہۡتَدٰی ﴿۳۰﴾ ۞ٙ

۳۰۔یہی ان کے علم کی انتہا ہے آپ کا رب یقینا بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے سے کون بھٹک گیا ہے اور اسے بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت پر ہے ۔

30۔ جو لوگ صرف دنیوی زندگی کو مقصد حیات سمجھتے ہیں، ان کی علمی سطح جانوروں سے زیادہ نہیں ہے۔ اسی لیے دعاؤں میں آیا ہے: وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَ ہَمِّنَا وَ لاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا ۔ (مستدرک الوسائل 6:285) اے اللہ! ہم کو ایسا نہ بنا دے کہ دنیا ہی ہمارا سب سے بڑا مقصد اور ہمارے علم و آگہی کی انتہا قرار پائے۔