آیات 19 - 22
 

اَفَرَءَیۡتُمُ اللّٰتَ وَ الۡعُزّٰی ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ لات اور عزیٰ کے بارے میں مجھے بتلاؤ۔

وَ مَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الۡاُخۡرٰی ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور پھر تیسرے منات کو بھی؟

اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَہُ الۡاُنۡثٰی ﴿۲۱﴾

۲۱۔ کیا تمہارے لیے تو بیٹے اور اللہ کے لیے بیٹیاں ہیں؟

تِلۡکَ اِذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزٰی ﴿۲۲﴾

۲۲۔ یہ تو پھر غیر منصفانہ تقسیم ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَفَرَءَیۡتُمُ اللّٰتَ وَ الۡعُزّٰی: اللہ تعالیٰ کے اس عظیم ملکوتی نظام کے مقابلے میں کیا تم نے ان بے حس، بے جان پتھروں کے بارے میں سوچا ہے جنہیں یہ لوگ لات، عزی اور مناۃ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور انہیں اپنا رب تسلیم کر کے تدبیر عالم کا اختیار سونپ دیتے ہیں۔

لات: اس بت کی بنی ثقیف کے لوگ پوجا کرتے تھے۔ یہ بت طائف میں نصب تھا۔ اہل تحقیق کہتے ہیں لات، اللہ کی تانیث یعنی ان کا مونث معبود ہے۔

عزی: یہ قریش کا بت تھا۔ اس کے معنی عزت والی ہے۔ یہ بت مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلۃ میں نصب تھا۔ جنگ احد میں ابوسفیان نے یہ نعرہ لگایا:

نحن لنا العزی ولا عزی لکم۔

ہمارے لیے عزی ہے تمہارا کوئی عزی نہیں

تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہو:

اللہ مولانا و لا مولی لکم۔ (بحار ۲۰: ۲۳)

اللہ ہمارا مولا ہے تمہارا کوئی مولا نہیں۔

مناۃ: یہ بت مکہ اور مدینہ کے درمیان قُدید کے مقام پر نصب تھا۔ اس بت کی پوجا کرنے والے خزاعہ، اوس اور خزرج کے لوگ تھے۔

۲۔ وَ مَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الۡاُخۡرٰی: کہتے ہیں: اس بت کو تیسرے اور أخری کی تعبیر کے ساتھ اس لیے یاد فرمایا کہ یہ مشرکین کے نزدیک کم اہمیت کا بت تھا۔

۳۔ اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَہُ الۡاُنۡثٰی: تم بیٹی کی پیدائش اپنے لیے ذلت اور عار سمجھتے ہو۔ اسے اللہ کے حصے میں رکھ دیا اور کہہ دیا یہ بت فرشتوں کی شبیہ ہیں اور فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔

۴۔ تِلۡکَ اِذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزٰی: یہ خود تمہاری ذہنوں کے مطابق غیر منصفانہ تقسیم ہے کہ جو باعث ذلت و عار ہے وہ اللہ کے حصے میں اور جو باعث فخر و مباہات ہے وہ خود تمہارے اپنے حصے میں۔

اس آیت کے ذیل میں داستان غرانیق کی ردکے بارے میں مقدمہ تفسیر کا مطالعہ فرمائیں۔


آیات 19 - 22