آیات 29 - 30
 

فَاَعۡرِضۡ عَنۡ مَّنۡ تَوَلّٰی ۬ۙ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ لَمۡ یُرِدۡ اِلَّا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿ؕ۲۹﴾

۲۹۔ پس آپ اس سے منہ پھیر لیں جو ہمارے ذکر سے منہ پھیرتا ہے اور صرف دنیاوی زندگی کا خواہاں ہے۔

ذٰلِکَ مَبۡلَغُہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ۙ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اہۡتَدٰی ﴿۳۰﴾

۳۰۔یہی ان کے علم کی انتہا ہے آپ کا رب یقینا بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے سے کون بھٹک گیا ہے اور اسے بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت پر ہے ۔

تفسیر آیات

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم ملتا ہے کہ آپ ان واہمہ پرستوں، ہماری عبادت اور ذکر کو چھوڑ کر پتھروں کی پوجا کرنے والوں اور صرف دنیوی زندگی تک محدود رہنے والوں کو اعتنا میں نہ لائیں۔

۲۔ ذٰلِکَ مَبۡلَغُہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ: ان کی علمی سطح بھی دنیا کی زندگی تک محدود ہے۔ ان کی فکری سطح انہی اوہام تک محدود ہے۔ اس زندگی کے ماوراء ایک اور زندگی ہے جس کے بغیر یہ کائنات عبث اور لغو ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ ان کے لیے قابل ہضم نہیں ہے۔

اسی لیے دعاؤں میں آیا ہے:

وَ لَا تَجْعَلَ الدُّنْیَا اَکْبَرَ ھَمِّنَا وَ لَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا۔۔۔۔ (مستدرک الوسائل ۶: ۲۸۵)

اے اللہ! ہمیں ایسا نہ بنا دے کہ دنیا ہی ہمارا سب سے بڑا مقصد ہو اور ہمارے علم و آگہی کی انتہا یہی دنیا قرار پائے۔

۳۔ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ: آپ کے رب کے علم میں ہے گمراہ کون ہے اور ہدایت یافتہ کون ہے لہٰذا گمراہ کو عذاب ملنے اور ہدایت یافتہ کو ثواب ملنے میں کوئی دشواری نہ ہو گی۔

اہم نکات

۱۔ دنیا پرست محدود ذہنیت کے ہوتے ہیں۔


آیات 29 - 30