آیت 26
 

وَ کَمۡ مِّنۡ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغۡنِیۡ شَفَاعَتُہُمۡ شَیۡئًا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ یَّاۡذَنَ اللّٰہُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَرۡضٰی﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور آسمانوں میں کتنے ہی ایسے فرشتے ہیں جن کی شفاعت کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی مگر اللہ کی اجازت کے بعد جس کے لیے وہ چاہے اور پسند کرے۔

تفسیر آیات

۱۔ جامد، بے شعور پتھروں کے بتوں کی تو کوئی حیثیت نہیں کہ انہیں شفاعت کا حق مل جائے۔ اللہ کے مقرب فرشتوں کو بھی شفاعت کا حق حاصل نہیں ہے جب تک اللہ تعالیٰ کا اذن اور اس کی رضا نہ ہو۔

اذن اور رضا میں فرق یہ ہے کہ اذن رکاوٹ پیدا نہ کرنے کو کہتے ہیں کہ ایک کام کو ہونے دیا جاتا ہے خواہ رکاوٹ پیدا نہ کرنے والا راضی ہو یا نہ ہو۔

وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ فَبِاِذۡنِ اللّٰہِ۔۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۱۶۶)

اور دونوں فریقوں کے درمیان مقابلے کے روز تمہیں جومصیبت پہنچی وہ اللہ کے اذن سے تھی۔

ایک کام ہے جس پر اللہ راضی نہیں ہے لیکن از راہ امتحان اس کام میں رکاوٹ نہیں ڈالتا، اسے ہونے دیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کام پر راضی ہے تو اذن کا ہونا ضروری ہے۔

اذن اور رضا ہونے کی صورت میں فرشتوں کی شفاعت ثابت ہے۔


آیت 26