مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۱﴾

۱۱۔ جو کچھ (نظروں نے) دیکھا اسے دل نے نہیں جھٹلایا۔

اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ﴿۱۲﴾

۱۲۔ تو کیا جسے انہوں نے (اپنی آنکھوں سے) دیکھا ہے تو تم لوگ (اس کے بارے میں) ان سے جھگڑتے ہو؟

وَ لَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃً اُخۡرٰی ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ اور بتحقیق انہوں نے پھر ایک مرتبہ اسے دیکھ لیا،

عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی﴿۱۴﴾

۱۴۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس،

عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۱۵﴾

۱۵۔ جس کے پاس ہی جنت الماویٰ ہے۔

اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا۔

مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی﴿۱۷﴾

۱۷۔ نگاہ نے نہ انحراف کیا اور نہ تجاوز۔

لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی﴿۱۸﴾

۱۸۔ بتحقیق انہوں نے اپنے رب کی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کیا ۔

18۔ قلب و نظر کے اتفاق کے ساتھ اللہ کی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔ اللہ کے ملکوتی نظام کی عظمت کا ایسا مشاہدہ کسی اور کے لیے قابل تصور نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ )انعام:75)

ہم نے اسی ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت دکھائی تاکہ یقین کرنے والوں میں ہو جائیں۔

اَفَرَءَیۡتُمُ اللّٰتَ وَ الۡعُزّٰی ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ لات اور عزیٰ کے بارے میں مجھے بتلاؤ۔

وَ مَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الۡاُخۡرٰی ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور پھر تیسرے منات کو بھی؟