آیت 28
 

وَ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ ۚ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا ﴿ۚ۲۸﴾

۲۸۔ حالانکہ انہیں اس کا کچھ بھی علم نہیں ہے وہ تو صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور گمان تو حق (تک) پہنچنے کے لیے کچھ کام نہیں دیتا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ: ان مشرکوں کو اس نام گزاری کا کوئی علم نہیں ہے کہ یہ فرشتے مونث اور اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ یہ بغیر سند کے بات کر رہے ہیں۔

۲۔ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ: یہ صرف ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں بلکہ در واقع یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ظن کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ظن کی یہ تعریف کی جاتی ہے:

الظن ھو الترجیح الراجح و المرجوح یسمی وھماً۔

ظن ایک طرف کو ترجیح دینے کو کہتے ہیں۔ جس طرف کو ترجیح نہیں ملتی اسے وہم کہتے ہیں۔

ظن کی یہ تعریف جدید اصطلاح کے مطابق ہے۔ ممکن ہے قرآن جسے ظن کہتا ہے اس سے مراد ’’وہم‘‘ہو۔

۳۔ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ: حق واقع کو کہتے ہیں۔ ظن واقع نمائی نہیں کر سکتا۔ ایک واہمے، سراب کا حقیقت کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کی اپنی ذہنی تخلیق، واہمہ ہے۔ اس کا حق کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔


آیت 28