اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا خَلَقۡنَا لَہُمۡ مِّمَّا عَمِلَتۡ اَیۡدِیۡنَاۤ اَنۡعَامًا فَہُمۡ لَہَا مٰلِکُوۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے دست قدرت سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے چنانچہ اب یہ ان کے مالک ہیں؟

71۔ اَیۡدِیۡنَاۤ سے مراد شرکت کی نفی ہے۔ یعنی صرف ہم نے ہی اپنی قدرت کا ملہ سے خلق کیا ہے۔ فَہُمۡ لَہَا مٰلِکُوۡنَ : اس جملے سے فردی ملکیت ثابت ہے۔ اگرچہ حقیقی مالک اللہ کی ذات ہے، لیکن اللہ کی طرف سے انسان کو ملکیت یعنی فائدے کا حق اس شرط کے تحت دیا گیا ہے کہ اس سے دوسروں کی حق تلفی نہ ہوتی ہو۔

اَیۡدِیۡنَاۤ ، ہاتھوں سے مراد قدرت ہے اور یَدۡ کہکر قدرت مراد لینا ایک محاورہ ہے۔

وَ ذَلَّلۡنٰہَا لَہُمۡ فَمِنۡہَا رَکُوۡبُہُمۡ وَ مِنۡہَا یَاۡکُلُوۡنَ﴿۷۲﴾

۷۲۔ اور ہم نے انہیں ان کے لیے مسخر کر دیا چنانچہ کچھ پر یہ سوار ہوتے ہیں اور کچھ کو کھاتے ہیں۔

وَ لَہُمۡ فِیۡہَا مَنَافِعُ وَ مَشَارِبُ ؕ اَفَلَا یَشۡکُرُوۡنَ﴿۷۳﴾

۷۳۔ اور ان میں ان کے لیے دیگر فوائد اور مشروبات ہیں تو کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے؟

وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اٰلِہَۃً لَّعَلَّہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿ؕ۷۴﴾

۷۴۔ اور انہوں نے اللہ کے سوا اور وں کو معبود بنا لیا ہے کہ شاید انہیں مدد مل سکے۔

لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ نَصۡرَہُمۡ ۙ وَ ہُمۡ لَہُمۡ جُنۡدٌ مُّحۡضَرُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ (حالانکہ) وہ (نہ صرف) ان کی مدد نہیں کر سکتے اور وہ الٹے ان معبودوں کے (تحفظ کے) لیے آمادہ لشکر ہیں۔

75۔ وہ اپنے معبودوں سے توقع بھی کیا رکھیں، جو خود اپنے آپ کو تحفظ دینے پر قادر نہیں ہیں، ان کے یہ معبود اپنی پوجا کرنے والوں کو کیا تحفظ دیں گے۔ الٹا یہ اپنے معبودوں کو تحفظ دیتے ہیں۔ یعنی ان کے یہ معبود اپنی بقاء کے لیے اپنے عبادت گزاروں کے محتاج ہیں، وہ ان کی کیا مدد کریں گے۔

فَلَا یَحۡزُنۡکَ قَوۡلُہُمۡ ۘ اِنَّا نَعۡلَمُ مَا یُسِرُّوۡنَ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔ لہٰذا ان کی باتیں آپ کو رنجیدہ نہ کریں، ہم سب باتیں جانتے ہیں جو یہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں۔

اَوَ لَمۡ یَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ﴿۷۷﴾

۷۷۔ کیا انسان یہ نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے اتنے میں وہ کھلا جھگڑالو بن گیا؟

77۔ یعنی ایک حقیر بوند سے پیدا ہونے والا انسان رب العالمین کے مقابلے میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ انسان اللہ کے بارے میں تو یہ سوال پیش کرتا ہے کہ اللہ خاک شدہ ہڈیوں کو دوبارہ کس طرح زندہ کرے گا؟ جبکہ اس نے اپنی پہلی خلقت کو سامنے نہیں رکھا، جو اسے دوبارہ زندہ کرنے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے اور یہ نہیں سوچا کہ انسان کچھ بھی نہ تھا تو اللہ نے انہی خاک کے ذروں سے اس انسان کو کس طرح پیدا کیا۔

وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلۡقَہٗ ؕ قَالَ مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ﴿۷۸﴾

۷۸۔ پھر وہ ہمارے لیے مثالیں دینے لگتا ہے اور اپنی خلقت بھول جاتا ہے اور کہنے لگتا ہے: ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟

قُلۡ یُحۡیِیۡہَا الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَہَاۤ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ خَلۡقٍ عَلِیۡمُۨ ﴿ۙ۷۹﴾

۷۹۔ کہدیجئے: انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر قسم کی تخلیق کو خوب جانتا ہے۔

79۔ بِکُلِّ خَلۡقٍ : تخلیق کی ابتدا ہو یا اعادہ تخلیق ہو، راز خلقت کے مالک کو کسی قسم کی تخلیق میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنَ الشَّجَرِ الۡاَخۡضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنۡتُمۡ مِّنۡہُ تُوۡقِدُوۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی پھر تم اس سے آگ سلگاتے ہو۔

80۔ درخت کی ٹہنی جب سبز ہو تو اس میں پانی موجود ہوتا ہے اور عین اس پانی کے اندر سے آتش نکالنا کیا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ مردہ چیز سے زندگی پیدا کر سکتا ہے؟ واضح رہے ہر سبز درخت میں آتش موجود ہے۔ ان درختوں کی ٹہنیوں کی رگڑ سے آتش پیدا ہوتی ہے اور جنگلوں کو آگ لگ جاتی ہے۔

اَوَ لَیۡسَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَہُمۡ ؕ؃ بَلٰی ٭ وَ ہُوَ الۡخَلّٰقُ الۡعَلِیۡمُ﴿۸۱﴾

۸۱۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، آیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کرے؟ کیوں نہیں! وہ تو بڑا خالق ، دانا ہے۔

اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿۸۲﴾

۸۲۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ کہے: ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے۔

82۔ جب اللہ کسی چیز کو وجود میں لانے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز فوراً وجود میں آ جاتی ہے۔ اس چیز کے وجود میں آنے کے لیے ارادہ الہٰی کافی ہے۔ اس کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی، یہاں تک کہ لفظ کن کی بھی۔ کیونکہ ایجاد سے پہلے کوئی مخاطب ہی نہیں ہوتا جس سے کن کا خطاب کیا جائے۔ بنا بریں کن انسان کو سمجھانے کے لیے ایک لفظی تعبیر ہے جو عالم ایجاد کی باتوں کو تمثیلی تعبیر کے بغیر سمجھنے سے قاصر ہے۔امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے: یقول لما اراد کونہ کن فیکون لا بصوت یقرع و لا نداء یسمع و انما کلامہ سبحانہ فعل منہ ۔ (اعلام الدین: 59) یعنی جب اللہ کن فرماتا ہے تو کسی آواز کے ذریعے ایسا نہیں کرتا بلکہ اللہ کا کلام اس کا فعل ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ کے خلق و ایجاد میں صرف ایک ارادہ کافی ہوتا ہے، لہٰذا اعادﮤ خلق کے بارے میں یہ سوال سرے سے نامعقول ہے کہ اللہ خاک شدہ ہڈیوں کو دوبارہ کیسے زندہ کرے گا۔

فَسُبۡحٰنَ الَّذِیۡ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿٪۸۳﴾

۸۳۔ پس پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی سلطنت ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔

83۔ ہر شے کی سلطنت سے مراد یہ ہے کہ اس کی حقیقی ملکیت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ اس پر ہر قسم کا تصرف کر سکتا ہے، اسے وجود میں لا سکتا ہے، ختم کر سکتا ہے اور دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔