آیات 77 - 78
 

اَوَ لَمۡ یَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ﴿۷۷﴾

۷۷۔ کیا انسان یہ نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے اتنے میں وہ کھلا جھگڑالو بن گیا؟

وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلۡقَہٗ ؕ قَالَ مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ﴿۷۸﴾

۷۸۔ پھر وہ ہمارے لیے مثالیں دینے لگتا ہے اور اپنی خلقت بھول جاتا ہے اور کہنے لگتا ہے: ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟

تفسیر آیات

۱۔ اَوَ لَمۡ یَرَ الۡاِنۡسَانُ: کیا اعادۂ حیات پر اعتراض کرنے والے اس بات پر نظر نہیں ڈالتے کہ ایک حقیر بوند سے پیدا ہونے والا انسان رب العالمین کے مقابلے میں کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے۔ ان بوسیدہ ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کر سکتا ہے۔ ایک ناتواں جرثومے سے پیدا ہونے والا یہ انسان اس قابل ہو سکتا ہے کہ اپنے خالق سے اعادۂ حیات کے بارے میں بحث اور مخاصمت کر سکے تو اس کا خالق اس بوسیدہ ہڈی کو دوبارہ زندہ کیوں نہیں کر سکتا؟

۲۔ وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلۡقَہٗ: وہ ہمارے لیے مثالیں دیتا ہے کہ ہڈی کے خاک ہونے کے بعد اسے کون زندہ کر سکتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول جاتا ہے کہ وہ بھی تو اسی خاک سے پیدا ہوا ہے۔ اس کے جسم کے تمام عناصر ارضی ہیں۔ چنانچہ بیج کا دانہ زیر زمین جاکر زمین کے مختلف عناصر جذب کر کے غذا تیار کرتا ہے۔ زمینی عناصر پر مشتمل غذا سے خون اور خون سے نطفہ اور نطفہ سے انسان بنتا ہے۔ کیا انسان اس بات کو بھول گیا کہ اس کا وجود اسی رَمِیۡمٌ خاک کا مرہون منت ہے۔


آیات 77 - 78