وَّ اَنِ اعۡبُدُوۡنِیۡ ؕؔ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ﴿۶۱﴾

۶۱۔ اور یہ کہ میری بندگی کرنا، یہی سیدھا راستہ ہے۔

وَ لَقَدۡ اَضَلَّ مِنۡکُمۡ جِبِلًّا کَثِیۡرًا ؕ اَفَلَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔ اور بتحقیق اس نے تم میں سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کر دیا ہے، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے؟

ہٰذِہٖ جَہَنَّمُ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ یہ وہی جہنم ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔

اِصۡلَوۡہَا الۡیَوۡمَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡفُرُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ آج اس جہنم میں جھلس جاؤ اس کفر کے بدلے میں جو تم کیا کرتے تھے۔

اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۶۵﴾

۶۵۔ آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے اس کے بارے میں جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔

65۔ ہر عضو اس عمل کے بارے میں گواہی دے گا جو اس سے متعلق ہے۔ اس آیت میں بطور مثال ہاتھوں اور پیروں کا ذکر ہے۔ دوسری آیات میں آنکھوں، کانوں، دل اور کھال کا بھی ذکر آتا ہے، جو گواہی دیں گے۔

وَ لَوۡ نَشَآءُ لَطَمَسۡنَا عَلٰۤی اَعۡیُنِہِمۡ فَاسۡتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰی یُبۡصِرُوۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔ اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا دیں پھر یہ راستے کی طرف لپک بھی جائیں تو کہاں سے راستہ دیکھ سکیں گے؟

66۔ اگر اللہ چاہے تو ان کی آنکھوں سے بصارت اور پیروں سے چلنے کی طاقت سلب کر لے، تو اس وقت انہیں معلوم ہو جاتا کہ ان کے پاس چارﮤ کار کیا ہے۔

وَ لَوۡ نَشَآءُ لَمَسَخۡنٰہُمۡ عَلٰی مَکَانَتِہِمۡ فَمَا اسۡتَطَاعُوۡا مُضِیًّا وَّ لَا یَرۡجِعُوۡنَ﴿٪۶۷﴾

۶۷۔ اور اگر ہم چاہیں تو انہیں ان ہی کی جگہ پر اس طرح مسخ کر دیں کہ نہ آگے جانے کی استطاعت ہو گی اور نہ پیچھے پلٹ سکیں گے۔

وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡہُ نُنَکِّسۡہُ فِی الۡخَلۡقِ ؕ اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔اور جسے ہم لمبی زندگی دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کر دیتے ہیں، کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے؟

68۔ روز کا مشاہدہ ہے کہ ایک نہایت طاقتور انسان عمر ڈھلتے ہی کس قدر ضعیف و ناتواں اور بے بس ہو جاتا ہے۔ اس سے پہلے وہ طفولیت میں بھی ناتواں بے بس تھا۔ جو اللہ ناتواں کو توانا اور توانا کو ناتواں بنا سکتا ہے، وہ مردوں کو دوبارہ زندہ بھی کر سکتا ہے۔

وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُرۡاٰنٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۶۹﴾

۶۹۔ اور ہم نے اس (رسول) کو شعر نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ اس کے لیے شایان شان ہے، یہ تو بس ایک نصیحت(کی کتاب) اور روشن قرآن ہے،

69۔ شعر رسول کے شایان شان نہیں ہے۔ چونکہ شعر میں خود مضمون سے زیادہ تخیلات اور وزن و قافیہ کو دخل ہوتا ہے۔ اس طرح شعر بیان واقع کے سلسلے میں حقائق سے دور اور فریب سے نزدیک ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ امر واقع بیان کرنے کے لیے برہان سے استفادہ کیا جاتا ہے اور برہان یقینیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ سامعین کو قائل کرنے کے لیے خطاب سے استفادہ کیا جاتا ہے اور خطاب سامعین کے مسلمات پر مشتمل ہوتا ہے اور لوگوں کے جذبات کو ابھارنے کے لیے شعر سے استفادہ کیا جاتا ہے اور اشعار خیالیات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس طرح برہان یقینیات پر، خطاب مسلمات پر اور شعر تخیلات پر مشتمل ہوتا ہے۔

لِّیُنۡذِرَ مَنۡ کَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الۡقَوۡلُ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ تاکہ جو زندہ ہیں انہیں تنبیہ کرے اور کافروں کے خلاف حتمی فیصلہ ہو جائے۔

70۔ یہ قرآن ایسے لوگوں کو نصیحت کرتا ہے جن میں زندگی کے آثار موجود ہوں۔ گوش شنوا، چشم بینا، قلب دانا رکھتے ہوں اور کافروں کے بارے میں حجت پوری ہونے کے بعد بھی کفر پر ثابت قدم رہنے پر ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اٹل اور حتمی ہو جائے۔