آیت 68
 

وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡہُ نُنَکِّسۡہُ فِی الۡخَلۡقِ ؕ اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔اور جسے ہم لمبی زندگی دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کر دیتے ہیں، کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے؟

تشریح کلمات

نُنَکِّسۡہُ:

( ن ک س ) نکس کے معنی کسی چیز کے الٹا دینے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡہُ نُنَکِّسۡہُ فِی الۡخَلۡقِ: جسے ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی جسمانی ساخت کے اعتبار سے پھر ناتوانی کی طرف الٹ دیتے ہیں۔ بڑھاپے میں انسان ناتوانی اور بے بسی میں شیرخوار بچے کی طرح ہو جاتا ہے۔ وہ کھانے پینے چلنے پھرنے میں دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔ یہاں تک وہ اپنے بستر پر ہی رفع حاجت کرنے لگتا ہے۔

یہ حقیقت اس جگہ بیان کرنے کی غرض کیا ہے؟ اکثر مفسرین نے لکھا ہے:

اس کی غرض یہ بیان کرنا ہے جب ہم ایک توانا انسان کو ناتوان بنا سکتے ہیں تو تمہاری بینائی ختم کرنا اور تمہیں مسخ کر کے جامد کرنا ہمارے لیے مشکل نہیں ہے۔

دوسری تفسیر مجمع البیان میں بیان فرمائی ہے:

غرض یہ بتانا ہے کہ جب ہم یہ کام کر سکتے ہیں تو اعادۂ حیات کا بھی کام کر سکتے ہیں۔

صاحب تفسیر التحریر و التنویر اس کی یہ تفسیر کرتے ہیں:

جسے مہلت دیتے ہیں اسے ہم مخلوقات میں ذلیل کرتے ہیں۔

وہ نُّعَمِّرۡہُ کو مہلت کے معنوں میں لیتے ہیں جیسے اَوَ لَمۡ نُعَمِّرۡکُمۡ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیۡہِ۔۔۔۔ (۳۵ فاطر:۳۷) میں یہ لفظ مہلت کے معنوں میں ہے اور الۡخَلۡقِ مخلوقات کے معنوں میں ہے۔

شاید ان سب میں بہتر تفسیر سابقہ آیات کے ساتھ مربوط کر کے اس طرح کی جائے:

اگر ہم چاہتے تو ان سے ان کی بینائی سلب کر لیتے اور انہیں اپنی جگہ مسخ کر کے جامد کر دیتے تو ایسا کر سکتے تھے لیکن ہم نے اپنی رحمت کی بنا پر ایسا نہیں کیا۔ البتہ ایک کام ہم کرتے ہیں وہ یہ ہے کہجسے ہم لمبی عمر دیتے ہیں انہیں اوندھا کر کے الٹ دیتے ہیں۔ ان سے بینائی بھی سلب ہو جاتی ہے اور تقریباً جوانی کی بہ نسبت مسخ ہو جاتے ہیں: لَمَسَخۡنٰہُمۡ عَلٰی مَکَانَتِہِمۡ۔ اپنی جگہ سے نہ ہل نہیں سکتے ہیں، نہ آگے جا سکتے ہیں، نہ واپس اپنی جگہ آسکتے ہیں۔

اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ: کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے کہ ان کی زندگی کے تمام امور ہمارے ہاتھ میں ہیں اور خود بے بس ہیں:

وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلۡقَہٗ۔۔۔۔ (۳۶ یٰس :۷۸)

پھر وہ ہمارے لیے مثالیں دینے لگتا ہے اور اپنی خلقت بھول جاتا ہے


آیت 68