آیات 69 - 70
 

وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُرۡاٰنٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۶۹﴾

۶۹۔ اور ہم نے اس (رسول) کو شعر نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ اس کے لیے شایان شان ہے، یہ تو بس ایک نصیحت(کی کتاب) اور روشن قرآن ہے،

لِّیُنۡذِرَ مَنۡ کَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الۡقَوۡلُ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ تاکہ جو زندہ ہیں انہیں تنبیہ کرے اور کافروں کے خلاف حتمی فیصلہ ہو جائے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ: قرآنی تعلیمات کے تین اہم اصولوں توحید و قیامت پر دلیل قائم کرنے کے بعد رسالت کے موضوع کا ذکر ہے۔

رسالت کے منکرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کاہن، مجنون اور ساحر بھی کہتے تھے اور شاعر بھی:

وَ یَقُوۡلُوۡنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوۡۤا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجۡنُوۡنٍ ﴿۳۶﴾ (۳۷ صافات: ۳۶)

اور کہتے تھے: کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں؟

اس آیت میں شاعر ہونے کے الزام کی تردید ہے۔ چونکہ اس الزام کا تعلق قرآن سے ہے اور قرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے۔ اہل زبان عرب قرآن سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہو رہے تھے لہٰذا منکرین کا زیادہ زور اس بات پر تھا کہ قرآن کلام اللہ نہیں بلکہ شاعرانہ کلام ہے۔

اس الزام کی تردید میں فرمایا: یہ قرآن شاعرانہ کلام نہیں ہے۔ اس کا اسلوب شعری نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے علاوہ کسی سے کچھ نہیں سیکھا اور اللہ نے اپنے رسول کو شعر سکھایا ہی نہیں ہے۔ کیوں نہیں سکھایا؟

۲۔ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ: چونکہ شاعری انہیں زیب نہیں دیتی اور ان کے شایان شان نہیں ہے۔ اس لیے قرآن اور شعر میں بنیادی فرق ہے۔ قرآن انسانیت کے لیے سب سے اہم ترین حقیقت اور واقع کی نشاندہی اور ابدی سعادت کی ہدایت کرتا ہے جب کہ شعر واقع کی نشاندہی سے دور خلاف واقع تخیلات پر مبنی باتیں کرتا ہے۔ شعر دل نشین ہوتا ہے، واقع بین نہیں ہوتا۔ شعر کے بارے میں مشہور ہے: الشعر اعذبہ اکذبہ۔ شعر میں سب سے میٹھا وہ ہے جو سب سے بڑا جھوٹ ہو۔

چنانچہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ امر واقع بیان کرنے کے لیے برہان سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ برہان، یقینیات پر مشتمل ہوتا ہے اور سامعین کو قائل کرنے کے لیے خطاب سے استفادہ کیا جاتا ہے اور خطاب سامعین کے مسلمات پر مشتمل ہوتا ہے۔ لوگوں کے جذبات ابھارنے کے لیے شعر سے استفادہ کیا جاتا ہے اور شعر تخیلات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس طرح برہان، یقینیات پر، خطاب مسلمات پر اور شعر تخیلیات پر مشتمل ہوتا ہے۔

۳۔ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُرۡاٰنٌ مُّبِیۡنٌ: یہ کتاب ذکر و نصیحت ہے۔ ابدی سعادت کی طرف دعوت دیتی ہے۔ حقائق کی نشاندہی کرتی ہے۔ کسی اور کلام میں یہ خصوصیت نہیں ملتی۔ یہ قرآن ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو پڑھی جائے گی۔ کسی زمانے میں اس کی تلاوت متروک نہیں ہو گی۔اس کی قرائت پرانی نہیں ہو گی۔ اسے بار بار پڑھنے سے ذہن خستہ نہ ہو گا۔

۴۔ لِّیُنۡذِرَ مَنۡ کَانَ حَیًّا: یہ قرآن ایسے لوگوں کی تنبیہ و نصیحت کرتا ہے جن میں زندگی کے آثار موجود ہوں۔ گوش شنوا، چشم بینا اور قلب دانا رکھتے ہوں۔ جن میں زندگی کے آثار نہ ہوں بلکہ قبر میں مدفون مردوں کی طرح کسی بات کے سمجھنے کی قابلیت نہ رکھتے ہوں ان کی نصیحت کرنا صرف اتمام حجت کے لیے ہے:

وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ﴿۲۲﴾ (۳۵ فاطر:۲۲)

اور آپ قبروں میں مدفون لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے۔

۵۔ وَّ یَحِقَّ الۡقَوۡلُ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ: تنبیہ و نصیحت کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ دلیل و برہان قائم کرنے کے بعد بھی وہ اپنے کفر پر ڈٹے رہتے ہیں تو ان کافروں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ اٹل اور حتمی ہو جاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآن برہان اور یقینیات پر مشتمل دستور ہدایت ہے۔

۲۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اللہ سے تعلیم لی ہے۔ اللہ نے آپ کو شعر نہیں سکھایا۔

۳۔ قرآن حیات آفرین ہے۔ مردے اس حیات کے اہل نہیں ہیں۔


آیات 69 - 70