آیات 66 - 67
 

وَ لَوۡ نَشَآءُ لَطَمَسۡنَا عَلٰۤی اَعۡیُنِہِمۡ فَاسۡتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰی یُبۡصِرُوۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔ اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا دیں پھر یہ راستے کی طرف لپک بھی جائیں تو کہاں سے راستہ دیکھ سکیں گے؟

وَ لَوۡ نَشَآءُ لَمَسَخۡنٰہُمۡ عَلٰی مَکَانَتِہِمۡ فَمَا اسۡتَطَاعُوۡا مُضِیًّا وَّ لَا یَرۡجِعُوۡنَ﴿٪۶۷﴾

۶۷۔ اور اگر ہم چاہیں تو انہیں ان ہی کی جگہ پر اس طرح مسخ کر دیں کہ نہ آگے جانے کی استطاعت ہو گی اور نہ پیچھے پلٹ سکیں گے۔

تشریح کلمات

لَطَمَسۡنَا:

( ط م س ) کسی چیز کا نام و نشان مٹا دینا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ نَشَآءُ لَطَمَسۡنَا عَلٰۤی اَعۡیُنِہِمۡ: آخرت کی بات دور کی ہے۔ خود دنیا میں اگر اللہ کی مشیت میں ہوتا تو تم سے تمہاری بینائی سلب ہو سکتی تھی۔

۲۔ فَاسۡتَبَقُوا الصِّرَاطَ: بینائی سلب ہونے کے بعد وہ اگر صحیح راستہ کی طرف لپک کر شوق سے جانا بھی چاہیں تو ان کو راستہ نظر نہیں آتا۔

استبقوا کے ایک معنی سبقت لے جانا، لپک جانا ہیں۔ دوسرے معنی یہ کیے ہیں: تجاوز کر جانا۔ بینائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ راستے سے تجاوز کر جائیں۔ راستہ دیکھ نہیں پاتے۔

لسان العرب نے استبق کا ایک معنی تجاوز کیا ہے۔

۳۔ وَ لَوۡ نَشَآءُ لَمَسَخۡنٰہُمۡ عَلٰی مَکَانَتِہِمۡ: اگر اللہ انہیں مسخ کر کے اپنی جگہ پر جامد کر دے تو یہ خود اپنی ذاتی قوت سے کسی قسم کی حرکت پر قادر نہ ہوتے، نہ آگے بڑھ سکتے، نہ واپس اپنے گھر آ سکتے مگر اللہ نے ایسا نہیں کیا۔

تو یہ لوگ از خود نہ بینائی کے مالک ہیں، نہ حرکت و جنبش کے، نہ ہی ان کے معبود ان کو بینائی اور حرکت دے سکتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ انسان کی یہ زندگی ہر لمحہ اللہ کی محتاج ہے۔ اگر اللہ ہاتھ اٹھا لے تو یہ خود یا اس کے خود ساختہ معبود نہ بینائی دے سکتے ہیں، نہ حرکت کی قوت۔


آیات 66 - 67