آیت 65
 

اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۶۵﴾

۶۵۔ آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے اس کے بارے میں جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ: جس منہ سے دنیا میں اللہ کی وحدانیت اور روز قیامت کا انکار ہوتا رہا اور جس زبان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب ہوتی رہی وہ آج بند رہے گی چونکہ یہ منہ، یہ زبان حق اور حقیقت بیان کرنے کی عادی نہیں ہے۔

چنانچہ روایت میں ہے کہ وہ اس دن بھی اپنے گناہوں کا انکار اور جھگڑا کریں گے۔ چنانچہ قرآن نے بھی اس کا ذکر کیا ہے:

ثُمَّ لَمۡ تَکُنۡ فِتۡنَتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡا وَ اللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشۡرِکِیۡنَ﴿۲۳﴾ (۶ انعام:۲۳)

پھر ان سے اور کوئی عذر بن نہ سکے گا سوائے اس کے کہ وہ کہیں: اپنے رب اللہ کی قسم ہم مشرک نہیں تھے۔

۲۔ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ: ان کے ہاتھ ہم سے بات کرنے لگیں گے۔ ہاتھ انسان کا وہ اوزار ہیں جو سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے لہٰذا ممکن ہے کہ ہاتھ کے پاس کرنے کی بہت ساری باتیں ہوں۔ ہاتھ کے تکلم کا موضوع گواہی ہے کہ میرے مالک نے مجھے کن کن جرائم میں استعمال کیا۔

۳۔ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ: پاؤں بھی گواہی دیں گے۔ ان جرائم کی جن کے ارتکاب کی طرف چلنے کے لیے پاؤں سے کام لیا گیا۔

اس آیت میں صرف ہاتھ اور پاؤں کا ذکر من باب المثال مذکور ہے۔ دیگر آیات میں باقی اعضاء کا بھی ذکر ہے:

حَتّٰۤی اِذَا مَا جَآءُوۡہَا شَہِدَ عَلَیۡہِمۡ سَمۡعُہُمۡ وَ اَبۡصَارُہُمۡ وَ جُلُوۡدُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۰﴾ (۴۱ حم سجدہ : ۲۰)

یہاں تک کہ جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف گواہی دیں گی کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔

اور سورہ نور آیت ۲۴ میں فرمایا:

یَّوۡمَ تَشۡہَدُ عَلَیۡہِمۡ اَلۡسِنَتُہُمۡ وَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۴﴾ (۲۴ نور: ۲۴)

اس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان سب اعمال کی گواہی دیں گے جو یہ کرتے رہے ہیں۔

نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ ان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی کہ خود اپنے ارادے سے نہیں بول سکیں گے۔

تَشۡہَدُ عَلَیۡہِمۡ اَلۡسِنَتُہُمۡ وَ اَیۡدِیۡہِمۡ ان کی زبانیں ان کے خلاف گواہی دیں گی اللہ کے حکم و ارادے سے، نہ صاحب زبان کے ارادے سے۔ لہٰذا ان دونوں آیات میں تصادم نہیں ہے۔

رہی یہ بحث ان اعضاء کی گواہی کس صورت میں ہوگی؟ کیا اللہ تعالیٰ ان میں قوت گویائی پیدا کرے گا یا ان کے جرائم انرجی کی شکل میں باقی رہیں گے اور قیامت کے دن ظاہر ہو جائیں گے؟ یہ ہمارے دائرہ علم و بحث سے خارج ہے چونکہ عالم آخرت کے حالات کو عالم دنیا کی روشنی میں سمجھنا ممکن نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کے دن مجرم کو اپنے اعضاء پر اختیار نہیں ہو گا۔

۲۔ سب سے سچا گواہ آلۂ جرم ہے۔


آیت 65