اَلَمۡ یَرَوۡا کَمۡ اَہۡلَکۡنَا قَبۡلَہُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ اَنَّہُمۡ اِلَیۡہِمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾

۳۱۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا؟ اب وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔

وَ اِنۡ کُلٌّ لَّمَّا جَمِیۡعٌ لَّدَیۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ﴿٪۳۲﴾

۳۲۔ اور ان سب کو ہمارے روبرو حاضر کیا جائے گا۔

وَ اٰیَۃٌ لَّہُمُ الۡاَرۡضُ الۡمَیۡتَۃُ ۚۖ اَحۡیَیۡنٰہَا وَ اَخۡرَجۡنَا مِنۡہَا حَبًّا فَمِنۡہُ یَاۡکُلُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اور مردہ زمین ان کے لیے ایک نشانی ہے جسے ہم نے زندہ کیا اور اس سے غلہ نکالا جس سے یہ کھاتے ہیں۔

وَ جَعَلۡنَا فِیۡہَا جَنّٰتٍ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ اَعۡنَابٍ وَّ فَجَّرۡنَا فِیۡہَا مِنَ الۡعُیُوۡنِ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ اور ہم نے اس (زمین) میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ بنائے اور ہم نے اس (زمین) میں کچھ چشمے جاری کیے۔

لِیَاۡکُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِہٖ ۙ وَ مَا عَمِلَتۡہُ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ اَفَلَا یَشۡکُرُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ تاکہ وہ اس کے پھلوں سے اور اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائیں، تو کیا یہ شکر نہیں کرتے؟

35۔ اس کا دوسرا ترجمہ یہ کیا گیا ہے: جو ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے۔ یعنی یہ سب اللہ کا دیا ہوا ہے۔ ان کے اپنے ہاتھوں کے بنے ہوئے نہیں ہیں۔

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ وَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ مِمَّا لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔ پاک ہے وہ ذات جس نے تمام جوڑے بنائے ان چیزوں سے جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود ان سے اور ان چیزوں سے جنہیں یہ جانتے ہی نہیں۔

36۔ ساری کائنات زوجیت کے نظام پر قائم ہے۔ انسان کو عالم نباتات اور عالم انفس میں زوجیت کا نظام نافذ ہونے کا علم تو قدیم سے ہی ہے اور عالم مجہولات میں بھی یہی نظام نافذ ہے۔ یعنی جہاں انسان کی علمی رسائی نہیں ہوتی، وہاں بھی زوجیت کا نظام ہے۔ چنانچہ کل تک انسان کے علم میں یہ نہیں تھا کہ ایٹم کیا چیز ہے؟ آج انسان کو جب ایٹم کا پتہ چلا تو علم ہوا کہ اس میں بھی زوجیت کا اصول کار فرما ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: وَ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَیۡنِ ۔ (ذاریات: 49) یعنی کائنات کی ہر چیز میں زوجیت ہے۔ عناصر کی زوجیت کے بغیر کوئی ترکیب وجود میں نہیں آتی اور اس کائنات کی رنگا رنگی انہی عناصر میں ازدواج و ترکیب کی کرشمہ سازی ہے۔

وَ اٰیَۃٌ لَّہُمُ الَّیۡلُ ۚۖ نَسۡلَخُ مِنۡہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمۡ مُّظۡلِمُوۡنَ ﴿ۙ۳۷﴾

۳۷۔ اور رات بھی ان کے لیے ایک نشانی ہے جس سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔

37۔ دن اور رات کا آنا جانا ایک طرف نظام کائنات کا نتیجہ ہے جو اجرام کی گردش پر قائم ہے، دوسری طرف زمین پر انسان، حیوانات اور نباتات کا وجود اسی گردش اور اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والے روز و شب کا مرہون منت ہے۔

وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ﴿ؕ۳۸﴾

۳۸۔ اور سورج اپنے مقررہ ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے، یہ بڑے غالب آنے والے دانا کی تقدیر ہے۔

38۔ جب یونانی نظریات مسلمانوں میں منتقل ہو گئے تو بطلیموس کا یہ نظریہ بھی مسلمانوں کے ہاں رائج ہوا کہ زمین مرکز ہے اور سورج چاند اور دیگر سیارے زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ جب بطلیموسی نظریہ باطل ثابت ہوا اور معلوم ہوا کہ زمین نہیں بلکہ سورج مرکز ہے اور اپنی جگہ ساکن ہے، باقی سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو الحادی نظریہ رکھنے والوں اور اسلام دشمنوں نے نعرہ لگانا شروع کیا کہ جدید حقائق کے سامنے قرآن کا نظریہ بھی باطل ثابت ہو گیا، کیونکہ جدید انکشافات سے معلوم ہوا کہ سورج مرکز ہے اور باقی سیارے گھومتے ہیں جبکہ قرآن کہتا ہے: وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ سورج گھومتا ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ سورج مرکز ہونے کے باوجود اپنی فیملی کے افراد (سیاروں) کے ساتھ اپنے مدار میں گھومتا ہے، لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا اپنے مقررہ ٹھکانے کی طرف۔ ماہرین فلکیات کے مطابق سورج کی کئی حرکتیں ہیں، محوری انتقالی حرکات کے علاوہ اپنی کہکشاں کے ساتھ حرکت کرتا ہے، جس کا یہ سورج حصہ ہے۔ اپنی حرکت انتقالی میں 19 کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے حرکت کر رہا ہے۔ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا میں لام بمعنی الیٰ ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ سورج اپنے ٹھکانے تک یعنی اپنے خاتمہ تک حرکت کرتا رہے گا۔ چنانچہ سورج سے چار میلین ٹن انرجی فی سیکنڈ کم ہو رہی ہے۔ تاہم یہ سورج کئی میلین سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔

وَ الۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِیۡمِ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح لوٹ جاتا ہے۔

39۔ چاند سورج میں سے ہر ایک کو ایک معین راستے پر لگا دیا گیا ہے اور وہ اس سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتے۔

لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔ نہ سورج کے لیے سزاوار ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ ہی رات دن پر سبقت لے سکتی ہے اور وہ سب ایک ایک مدار میں تیر رہے ہیں۔

40۔ سورج اور چاند کے مدار جدا ہیں اور ہر ایک کو اپنے مدار میں پابند رکھا گیا ہے۔ نہ سورج چاند کے مدار میں آ سکتا ہے، نہ ہی چاند سورج کے مدار میں داخل ہو سکتا ہے۔ چاند زمین کے گرد ایک مختصر مدار میں گھوم رہا ہے، جبکہ سورج اپنے ایک وسیع مدار میں گھومتا ہے۔ لہٰذا سورج اور چاند کے مدار میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اس لیے فرمایا: سورج کے لیے سزاوار نہیں ہے کہ وہ اپنے تابع سیارات میں سے ایک سیارہ (زمین) کے تاپع چاند کے مدار میں آ جائے۔ یعنی اپنے تابع کے تابع کے مدار میں آ جائے۔