آیت 38
 

وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ﴿ؕ۳۸﴾

۳۸۔ اور سورج اپنے مقررہ ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے، یہ بڑے غالب آنے والے دانا کی تقدیر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا: جب یونانی نظریات مسلمانوں میں منتقل ہوئے تو بطلیموس کا یہ نظریہ بھی مسلمانوں کے ہاں رائج ہوا کہ زمین مرکز ہے اور سورج، چاند اور دیگر سیارے زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ جب بطلیموسی نظریہ باطل ثابت ہوا اور معلوم ہوا کہ زمین نہیں بلکہ سورج مرکز ہے اور اپنی جگہ ساکن ہے باقی سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو الحادی نظریہ رکھنے والوں اور اسلام دشمنوں نے نعرہ لگانا شروع کیا کہ جدید حقائق کے سامنے قرآن کا نظریہ باطل ثابت ہوا کیونکہ جدید انکشافات سے معلوم ہوا کہ سورج مرکز ہے اور باقی سیارے اس کے گرد گھومتے ہیں جبکہ قرآن کہتا ہے: وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ سورج گھومتا ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ سورج مرکز ہونے کے باوجود اپنی فیملی کے افراد (سیاروں) کے ساتھ ۲۰ کلومیٹر فی سکینڈ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے اور تَجۡرِیۡ ایک سمت کی طرف رواں دواں ہونے کے معنوں میں ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کرۂ ارض کے رہنے والے فضائے عالم میں محو سفر ہیں اور سال میں چھ سو ملین کلومیٹر کی رفتار سے ہم اپنے سورج کے ساتھ اپنی نامعلوم منزل و مستقر کی طرف جا رہے ہیں۔

لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا میں لام بمعنی الی ہو سکتا ہے ۔یہ سورج اپنے ٹھکانے یعنی اپنے خاتمے تک حرکت کرتا رہے گا۔ چنانچہ سورج سے چار ملین ٹن انرجی فی سیکنڈ کم ہو رہی ہے تاہم یہ سورج کئی ملین سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی ایک قرائت لا مستقَر لہا ہے۔ یعنی سورج جاری ہے۔ اس کا کوئی مستقر نہیں ہے۔ اپنے خاتمے تک حرکت کرتا رہے گا۔

حقیقت امر یہ ہے کہ مستقر کا صحیح مفہوم انسان اس وقت سمجھ سکتا ہے جب انسان کے پاس کائنات کے بارے میں ناقابل تبدیل علم موجود ہو جبکہ انسانی علم ہر زمانے میں بدلتا رہتا ہے اور انسان کو جو حاصل ہے وہ علم نہیں، اکثر مفروضہ ہے اور یہ مفروضہ قابل تبدیل ہے۔

۲۔ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ: یہ مقدرات اس ذات کے ترتیب دادہ ہیں جو قوت و طاقت کے اعتبار سے ہر قوت پر غالب آنے والی ہے اور علم کے اعتبار سے فوق کل ذی علم علیم ہے۔ وہی ذات اس بات سے باخبر ہے کہ ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ہم ایک نامعلوم منزل کی طرف محو پرواز ہیں: وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ۔۔۔۔

۲۔ مقدرات عالم کا راز ابھی پردۂ خفا میں ہے: ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ۔


آیت 38