منظومہ شمسی کی گردش


وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اور اسی نے شب و روز اور آفتاب و ماہتاب پیدا کیے،یہ سب کسی نہ کسی فلک میں تیر رہے ہیں۔

33۔ یعنی کل کے کل اجرام فلکی اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔ یہاں سکوت و سکون کہیں نظر نہیں آتا۔ ہر چیز گردش میں ہے۔

وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ﴿ؕ۳۸﴾

۳۸۔ اور سورج اپنے مقررہ ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے، یہ بڑے غالب آنے والے دانا کی تقدیر ہے۔

38۔ جب یونانی نظریات مسلمانوں میں منتقل ہو گئے تو بطلیموس کا یہ نظریہ بھی مسلمانوں کے ہاں رائج ہوا کہ زمین مرکز ہے اور سورج چاند اور دیگر سیارے زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ جب بطلیموسی نظریہ باطل ثابت ہوا اور معلوم ہوا کہ زمین نہیں بلکہ سورج مرکز ہے اور اپنی جگہ ساکن ہے، باقی سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو الحادی نظریہ رکھنے والوں اور اسلام دشمنوں نے نعرہ لگانا شروع کیا کہ جدید حقائق کے سامنے قرآن کا نظریہ بھی باطل ثابت ہو گیا، کیونکہ جدید انکشافات سے معلوم ہوا کہ سورج مرکز ہے اور باقی سیارے گھومتے ہیں جبکہ قرآن کہتا ہے: وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ سورج گھومتا ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ سورج مرکز ہونے کے باوجود اپنی فیملی کے افراد (سیاروں) کے ساتھ اپنے مدار میں گھومتا ہے، لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا اپنے مقررہ ٹھکانے کی طرف۔ ماہرین فلکیات کے مطابق سورج کی کئی حرکتیں ہیں، محوری انتقالی حرکات کے علاوہ اپنی کہکشاں کے ساتھ حرکت کرتا ہے، جس کا یہ سورج حصہ ہے۔ اپنی حرکت انتقالی میں 19 کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے حرکت کر رہا ہے۔ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا میں لام بمعنی الیٰ ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ سورج اپنے ٹھکانے تک یعنی اپنے خاتمہ تک حرکت کرتا رہے گا۔ چنانچہ سورج سے چار میلین ٹن انرجی فی سیکنڈ کم ہو رہی ہے۔ تاہم یہ سورج کئی میلین سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔