آیت 40
 

لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔ نہ سورج کے لیے سزاوار ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ ہی رات دن پر سبقت لے سکتی ہے اور وہ سب ایک ایک مدار میں تیر رہے ہیں۔

تشریح کلمات

یَّسۡبَحُوۡنَ:

( س ب ح ) السباحۃ پانی میں تیرنے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ: سورج اور چاند کے مدار جدا ہیں۔ ہر ایک کو اپنے مدار میں پابند رکھا گیا ہے۔ نہ سورج چاند کے مدار میں آ سکتا ہے، نہ ہی چاند سورج کے مدار میں داخل ہو سکتا ہے۔ چاند زمین کے گرد ایک مختصر مدار میں گھومتا ہے جب کہ سورج اپنے ایک وسیع مدار میں گھوم رہا ہے۔ لہٰذا سورج اور چاند کے مدار میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اس لیے فرمایا: سورج کے لیے سزاوار نہیں کہ وہ اپنے تابع سیارات میں سے ایک سیارے (زمین) کے تابع چاند کے مدارمیں آ جائے۔ یعنی اپنے تابع کے تابع کے مدار میں آ جائے۔ اسی لیے فرمایا: سورج کے لیے سزاوار نہیں ہے۔ لہٰذا نظام کائنات میں سورج اور چاند دونوں کے لیے ممکن نہیں ہے کہ دوسرے کے مدار میں آ جائیں کہ سورج کے طلوع کے موقع پر چاند اور چاند کے طلوع کے موقع پر سورج نکل آئے۔

۲۔ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ: نظام کائنات میں سورج اور چاند دونوں کے لیے ممکن نہیں کہ دوسرے کے مدار میں آ جائیں اور نہ ہی ایسا ممکن ہے کہ دن کی مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے یا دن کے آنے کے مقررہ وقت سے پہلے رات آ جائے۔ اربوں سال سے دن اور رات اپنے اپنے مقررہ وقت پر آرہے ہیں۔ یعنی شب و روز کا آنا جانا ایک دقیق حساب کے مطابق ہے۔ اس میں کروڑوں سال میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آ سکتا۔ جب فرق آئے گا تو یہ نظام درہم برہم ہو جائے گا:

فَاِذَا بَرِقَ الۡبَصَرُ وَ خَسَفَ الۡقَمَرُ وَ جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍ اَیۡنَ الۡمَفَرُّ (۷۵ قیامت:۷ تا ۱۰)

۷۔ پس جب آنکھیں پتھرا جائیں گی، اور چاند بے نور ہو جائے گا، اور سورج اور چاند ملا دیے جائیں گے تو انسان اس دن کہے گا: بھاگ کر کہاں جاؤں؟

یہ محکم نظام ایک نظم دہندہ پر دلالت کرتا ہے۔ کسی غیر اللہ کے بس میں نہیں ہے کہ وہ ایسا نظام اور تدبیر بنائے۔

۳۔ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ: یعنی کل من الشمس والقمر فی فلک یسبحون۔ سورج اور چاند میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔ سورج مرکز ہونے کے باوجود حرکت میں ہے جس طرح چاند حرکت میں ہے۔ اس جملے میں دیگر اجرام کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا کُلٌّ سے مراد تمام اجرام لینا خلاف ظاہر ہے اگرچہ تمام اجرام حرکت میں ہیں۔

سورج اور چاند کی حرکت کو پانی میں تیرنے کے ساتھ تعبیر کرنا قابل توجہ ہے کہ یہ اجرام فضائے آسمان میں اس طرح گھوم رہے ہیں جس طرح مچھلی پانی میں تیر رہی ہوتی ہے۔


آیت 40