آیات 30 - 32
 

یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ۚؑ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ ہائے افسوس! ان بندوں پر جن کے پاس جو بھی رسول آیا اس کے ساتھ انہوں نے تمسخر کیا۔

اَلَمۡ یَرَوۡا کَمۡ اَہۡلَکۡنَا قَبۡلَہُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ اَنَّہُمۡ اِلَیۡہِمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾

۳۱۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا؟ اب وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔

وَ اِنۡ کُلٌّ لَّمَّا جَمِیۡعٌ لَّدَیۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ﴿٪۳۲﴾

۳۲۔ اور ان سب کو ہمارے روبرو حاضر کیا جائے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ: اے حسرت و ندامت! اگر تجھے حسرت و ندامت کرنا ہے تو اس کے لیے سزاوار ترین قوم وہ لوگ ہیں جن کی ہدایت و سعادت کے لیے اللہ کی طرف سے رسول آتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ اس عظیم رحمت الٰہی کو ٹھکرا دیتے ہیں بلکہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان رسولوں سے اپنی ابدی زندگی کو سعادت مند بنانے کی جگہ ان کا تمسخر اڑا کر اپنے لیے ہمیشہ کی تباہی اختیار کرتے ہیں۔

۲۔ اَلَمۡ یَرَوۡا: کیا ان تمسخر کرنے والوں نے نہیں دیکھا۔ یعنی علمی بصیرت سے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے کتنے تمسخری عناصر کو ہم نے ایسے ہی جرائم کی پاداش میں تباہ کر دیا۔ ان تمسخری عناصر میں اہل مکہ شامل ہیں۔ اسی شمولیت کی بنا پر کلام کا رخ ان کی طرف ہے کہ ان کی ہلاکت تاریخ کا حصہ بننے والی ہے۔

۳۔ اَنَّہُمۡ اِلَیۡہِمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ: اَنَّہُمۡ یعنی اقوام اِلَیۡہِمۡ اہل مکہ کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گی۔ کیا اہل مکہ کو علم نہیں ہے کہ تمسخری عناصر اپنی نابودی کے بعد پھر دوبارہ آباد ہونے والے نہیں ہیں؟

۴۔ وَ اِنۡ کُلٌّ لَّمَّا جَمِیۡعٌ لَّدَیۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ: یہ ہلاک شدہ قومیں اہل مکہ کی طرف لوٹ کر واپس نہیں آئیں گی بلکہ وہ اللہ کی عدالت میں اپنے جرائم کے محاسبہ کے لیے حاضر کی جائیں گی جہاں انہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ داعیان حق ہمیشہ زبان کے زخموں کی زد میں رہے ہیں: اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ۔

۲۔ حسرت و ندامت ان لوگوں کے لیے ہے جو راہنماؤں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔

۳۔ اللہ کے قہر و غضب میں ہلاک ہونے والے کبھی واپس نہیں آ سکتے۔


آیات 30 - 32