آیات 34 - 35
 

وَ جَعَلۡنَا فِیۡہَا جَنّٰتٍ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ اَعۡنَابٍ وَّ فَجَّرۡنَا فِیۡہَا مِنَ الۡعُیُوۡنِ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ اور ہم نے اس (زمین) میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ بنائے اور ہم نے اس (زمین) میں کچھ چشمے جاری کیے۔

لِیَاۡکُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِہٖ ۙ وَ مَا عَمِلَتۡہُ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ اَفَلَا یَشۡکُرُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ تاکہ وہ اس کے پھلوں سے اور اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائیں، تو کیا یہ شکر نہیں کرتے؟

تفسیر آیات

۱۔ وَ جَعَلۡنَا فِیۡہَا جَنّٰتٍ: اس زمین سے زندگی کو تسلسل دینے کا ذکر ہے۔ ان میں اہم ترین حیات بخش غذا کھجور ہے جو غذائیت سے بھرپور ہونے کے ساتھ سب سے زیادہ سرعت کے ساتھ خون میں جذب ہونے والی غذا ہے۔ دوسرے نمبر پر انگور ہے۔ اس کی افادیت تو اس مضمون کے ماہرین بہتر بتا سکتے ہیں۔

۲۔ وَّ فَجَّرۡنَا فِیۡہَا مِنَ الۡعُیُوۡنِ: چشموں سے نکلنے والے پانی سے بھی حیات کو دوام ملتا ہے۔ خود پانی کا حیات بخش ہونا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

۳۔ لِیَاۡکُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِہٖ: تاکہ اس کا پھل کھائیں۔ وہ پھل جو اللہ نے بنایا۔ ثَمَرِہٖ کی ضمیر بعض کے نزدیک مجعول کی طرف جاتی ہے جسے جعلنا سے سمجھا گیا ہے۔ یعنی لیاکلوا من ثمر المجعول ، بعض دیگر کے نزدیک من ثمر المذکور ، بعض کے نزدیک من ثمر النخل ہے۔

۴۔ وَ مَا عَمِلَتۡہُ اَیۡدِیۡہِمۡ: اور وہ چیز بھی کھائیں جو ان کے ہاتھوں کی محنت اور کمائی ہے۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ ’’ ما ‘‘ نافیہ ہے۔ وہ چیز کھائیں جو ان کے ہاتھوں کی پیداوار نہیں ہے۔ اللہ کا بنائی ہوئی ہے۔ شاید اَفَلَا یَشۡکُرُوۡنَ۔ کیا وہ شکر نہیں کرتے اس دوسری تفسیر کے لیے قرینہ بن جائے چونکہ انسان کے ہاتھوں کی کمائی وَمَا عَمِلَتْہُ اَيْدِيْہِمْ اللہ کی بنائی ہوئی، جَعَلۡنَا کے مقابلے میں نہیں ہے۔ انسان اسی پھل کو حاصل کرتا ہے جو اللہ کا بنایا ہوا ہے۔

اہم نکات

۱۔ جو ذات دنیا میں پھلوں اور دانوں کے ذریعے ہر آن تمہاری تجدید حیات کر رہی ہے کیا وہ اس زندگی کو دوبارہ خلق نہیں کر سکتی؟


آیات 34 - 35