آیت 59
 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۵۹﴾

۵۹۔ اے نبی! اپنی ازواج اور اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہدیجئے: وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں، یہ امر ان کی شناخت کے لیے (احتیاط کے) قریب تر ہو گا پھر کوئی انہیں اذیت نہ دے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ: اس جگہ بنات (بیٹیاں) سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک سے زیادہ بیٹیاں تھیں چونکہ اولاد فاطمہ علیہ السلام میں سے بیٹوں کو ابناء رسول اور بیٹیوں کو بنات رسول کہتے ہیں۔ چنانچہ آیہ مباہلہ میں حسنین علیہما السلام کو ابنائنا کہا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپؐ نے حضرت حسن علیہ السلام سے فرمایا:

ان ابنی ھذا سید۔ (بحار ۱۶: ۳۰۶)

میرا یہ بیٹا سردار ہیں

نیز یہ فرمان بھی ثابت ہے کہ آپؐ نے امام حسن ، امام حسین علیہما السلام سے فرمایا:

ابنای ھذان امامان قاما او قعدا۔ (بحار ۱۱: ۳۰۶)

میرے یہ دونوں بیٹے امام ہیں خواہ قیام کریں یا نہ کریں۔

۲۔ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ: جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے سارا بدن چھپ جاتا ہے۔

یُدۡنِیۡنَ: اس لفظ کے بعد الیٰ آجائے تو قریب کے معنی بنتے ہیں اور اگر اس کے بعد عَلٰی آجائے ارخاء لٹکانے کے معنی بنتے ہیں۔ جیسے اس آیت میں ہے: وَ دَانِیَۃً عَلَیۡہِمۡ ظِلٰلُہَا۔۔۔۔ (۷۶ الانسان: ۱۴) لہٰذا آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے چادر کا ایک حصہ لٹکا دیا کرو۔ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ میں من تبعیض کے لیے ہے۔ یہاں سے ہم چادر کا ایک حصہ سمجھ لیتے ہیں۔

سورہ نور میں فرمایا:

وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ۔۔۔ (۲۴ نور: ۳۱)

اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں۔

ان دونوں آیات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نہ گریباں کھلے رکھیں، نہ سر کے بال کھلے رکھیں بلکہ چادروں کو نیچے رکھیں کہ کنیزوں کی طرح مبتذل نہ ہوں بلکہ باوقار نظر آئیں۔

چادر نیچی کرنے کے حکم کا مطلب کیا چہرہ چھپانا ہے؟ یا سر، گردن اور سینہ چھپانا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔

۳۔ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ: بہرحال اس حجاب سے جو نتیجہ مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اس حجاب سے ان خواتین کی شناخت ہو جائے جو وقار و شرافت اور عفت و پاکیزگی کی مالک ہیں اور مدینے کے اوباش ان کے بارے میں جسارت نہ کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پردے سے عورت کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی طرف بری نگاہیں نہیں اٹھتیں۔ حجاب عفت کی پہچان اور عورت کا وقار ہے۔

اہم نکات

۱۔ تبلیغ احکام کی ابتدا قریبی رشتہ داروں سے ہونی چاہیے: قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ۔۔۔۔

۲۔ خواتین کے وقار کی پہچان حجاب ہے۔

۳۔ لباس کی نوعیت خاتون کی شخصیت کا آئینہ ہے۔

۴۔ بری نگاہوں کو جذب کرنے میں لباس کو بڑا دخل ہے۔


آیت 59